وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کو مکمل منسوخ کرنے کا مطالبہ، ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کو بی آر ایس کی تائید
حیدرآباد۔ 16 ستمبر (سیاست نیوز) بی آر ایس کے سینئر قائد شیخ عبداللہ سہیل نے وقف (ترمیمی) ایکٹ 2025 پر سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ کہ اس نے محدود راحت فراہم کیا ہے۔ لیکن یہ مسلم کمیونٹی کے بنیادی آئینی اور مذہبی خدمات کو دور کرنے میں ناکام رہا ہے۔ آج ایک پریس نوٹ جاری کرتے ہوئے شیخ عبداللہ سہیل نے عدالت کے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا جس میں بعض متنازعہ دفعات پر روک لگائی گئی جن میں وہ شق بھی شامل ہے جس کے تحت کسی شخص کو وقف کرنے سے قبل پانچ برسوں تک عملی طور پر مسلمان ہونا لازمی قرار دیا گیا تھا۔ سہیل نے کہا کہ یہ شق من مانی تھی اور مذہبی آزادی کے جذبے کے خلاف تھی۔ عدالت نے بروقت اسے معطل کیا۔ ساتھ ہی غیر مسلم افراد کی رکنیت اور ریونیو عہدیداروں کے اختیارات سے متعلق دفعات پر بھی روک لگائی گئی۔ انہو ںنے مزید کہا کہ عدالت کی ہدایت کے کسی بھی وقف جائیداد کو حتمی فیصلہ آنے تک ضبط یا ریکارڈ سے خارج نہ کیا جائے۔ یہ ایک ضروری حفاظتی اقدام ہے۔ تاہم سہیل نے اس فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا کہ ابھی بھی کئی نقصان دہ دفعات برقرار ہیں۔ ان کے مطابق یہ دفعات دراصل ایک سوچا سمجھا اقدام ہے جس کا مقصد وقف اداروں کو کمزور کرنا اور ان کی خود مختاری کو ختم کرنا ہے۔ وقف کا لازمی رجسٹریشن یہ آئینی حقوق کے دیگر اہداف کو مسلمانوں کے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس کی بڑے پیمانے پر مخالفت کے باوجود آپریٹیو رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ 2025 کی ترمیمی اختیارات علیحدگی کی اصول کو کمزور کرتی ہیں۔ بی جے پی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت نے اس قانون کو جانبدارانہ طریقہ سے نافذ کیا ہے۔ کمیونٹی اور ماہرین کی رائے کو نظرانداز کرتے ہوئے جزوی ریلیف کو انصاف نہیں کہا جاسکتا جب کہ پورا ایکٹ مسلمانوں کے حقوق کو چھیننے کے لئے بنایا گیا ہے۔ بی آر ایس کے قائد شیخ عبداللہ سہیل نے وقف ترمیمی ایکٹ 2025 کی مکمل منسوخی اور سابقہ وقف ایکٹ کی بحالی کا مطالبہ کیا۔ یہ قانون اصلاح نہیں بلکہ جبر ہونے کا دعویٰ کیا جب پورا ڈھانچہ ہی غلط ہوتو ہم آدھی اصلاح قبول نہیں کرتے۔ انہوں نے یہ بھی اعلان کیا کہ بی آر ایس پارٹی اس نئے قانون کے خلاف ملک گیر پرامن احتجاجات کی مکمل تائید و حمایت کرے گی۔ 2