سپریم کورٹ کا فیصلہ ، 10 اسمبلی حلقہ جات کے ضمنی چناؤ پر قانونی اور دستوری ماہرین کی رائے منقسم

   

سیاسی پارٹیوں کی اسپیکر اسمبلی پر نظریں، عدلیہ اور مقننہ کی بالادستی کا فیصلہ تین ماہ میں ہوجائے گا، منحرف ارکان میں بے چینی
حیدرآباد ۔ یکم اگست (سیاست نیوز) بی آر ایس کے 10 منحرف ارکان سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد تلنگانہ کے سیاسی حلقوں میں جوبلی ہلز کے بشمول 11 اسمبلی حلقہ جات کے ضمنی چناؤ کی پیش قیاسی شروع ہوچکی ہے ۔ چیف جسٹس بی آر گوائی کی زیر قیادت بنچ نے اسپیکر تلنگانہ اسمبلی کو منحرف ارکان کے خلاف درخواستوں کی اندرون تین ماہ یکسوئی کی ہدایت دی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سیاسی پارٹیوں کی متضاد رائے منظر عام پر آئی ہے۔ برسر اقتدار کانگریس پارٹی کا دعویٰ ہے کہ سپریم کورٹ نے اسپیکر اسمبلی کے اختیارات کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ عدلیہ کی جانب سے اسپیکر جیسے دستوری عہدہ کو ہدایت نہیں دی جاسکتی بلکہ صرف مشورہ دیا جاسکتا ہے۔ جسٹس بی آر گوائی کی زیر قیادت بنچ نے اسپیکر کو اندرون تین ماہ درخواستوں کی یکسوئی کا مشورہ دیا ہے۔ دوسری طرف بی آر ایس قائدین اس فیصلہ کو اہم کامیابی تصور کر رہے ہیں اور انہیں یقین ہے کہ جوبلی ہلز کے ساتھ 10 اسمبلی حلقہ جات کے ضمنی چناؤ یقینی ہے۔ قانون اور دستور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ ضمنی چناؤ کا انحصار اسپیکر اسمبلی پرساد کمار کے فیصلہ پر رہے گا۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران بی آر ایس حکومت نے کانگریس ، تلگو دیشم ، سی پی آئی اور بی ایس پی کے منحرف ارکان کے خلاف کی گئی شکایتوں کو جس انداز میں طوالت دی تھی، ٹھیک اسی طرح اسپیکر پرساد کمار بھی اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کرنے میں وقت لے سکتے ہیں۔ اسپیکر کے فیصلہ پر تمام کی نگاہیں مرکوز رہیں گی۔ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اسپیکر کے پاس فیصلہ کرنے کیلئے مناسب وقت لینے کا اختیار موجود ہے اور کوئی بھی عدالت اسپیکر کے اختیارات کو چیلنج نہیں کرسکتی۔ بی آر ایس سے انحراف کرتے ہوئے کانگریس میں شمولیت اختیار کرنے والے 10 ارکان اسمبلی میں سابق اسپیکر پوچارم سرینواس ریڈی شامل ہیں جنہوں نے بی آر ایس دور حکومت میں منحرف ارکان کے خلاف کانگریس کی جانب سے کی گئی شکایتوں پر کوئی کارروائی نہیں کی تھی۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ منحرف ارکان کے خلاف اسپیکر کے پاس داخل کی گئی درخواستوں کی یکسوئی کے لئے کوئی حد مقرر نہیں کی جاسکتی۔ اسپیکر شکایات کی سماعت اور ان کی یکسوئی کیلئے مناسب وقت لے سکتے ہیں۔ 2022 میں مہاراشٹرا میں شیوسینا (ادھوٹھاکرے) اور شیوسینا (یکناتھ شنڈے) گروپس کا تنازعہ بھی سپریم کورٹ پہنچا تھا۔ سپریم کورٹ نے منحرف ارکان کے سلسلہ میں کارروائی کی ، اسپیکر مہاراشٹرا اسمبلی کو ہدایت دی تھی لیکن اسپیکر نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل نہیں کیا۔ کیا تلنگانہ اسمبلی میں مہاراشٹرا کی مثال دہرائی جائے گی۔ اسپیکر کو فیصلہ کرنے کیلئے تین ماہ کی مہلت موجود ہے اور اگر وہ چاہیں تو اس مہلت کے اختتام سے قبل سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کرسکتے ہیں یا پھر اگر وہ فیصلہ نہ بھی کریں تو سپریم کورٹ انہیں واضح طورپر ہدایت نہیں دے سکتا۔ مقننہ اور عدلیہ کے اختیارات پر قومی سطح پر مباحث جاری ہیں۔ سابق نائب صدر جمہوریہ جگدیپ دھنکڑ نے بارہا کہا تھا کہ عدلیہ کو مقننہ کے امور میں مداخلت کا اختیار نہیں۔ بی آر ایس کے 10 منحرف ارکان پی وینکٹ راؤ ، پوچارم سرینواس ریڈی ، ڈی ناگیندر ، جی مہیپال ریڈی ، اے گاندھی ، بی کرشنا موہن ریڈی ، سنجے کمار ، کے یادیا ، پرکاش گوڑ اور کڈیم سری ہری نے بھی سپریم کورٹ کے فیصلہ پر قانونی ماہرین سے مشاورت شروع کردی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد سے منحرف ارکان میں بے چینی دیکھی جارہی ہے۔ بی آر ایس سربراہ کے سی آر نے پارٹی قائدین سے کہا کہ تین ماہ بعد 10 اسمبلی نشستوں کا ضمنی چناؤ یقینی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ پر اسپیکر اسمبلی بھلے ہی کیا فیصلہ کریں لیکن سیاسی حلقوں میں آئندہ تین ماہ تک ضمنی چناؤ کے سلسلہ میں قیاس آرائیوں کا دور جاری رہے گا۔