چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے فیصلہ دیا ہے کہ کولکاتا پولیس کمشنرراجیوکمارکو پوچھ گچھ کے لئے سی بی آئی کے سامنے پیش ہونا ہوگا۔ اس پرممتا بنرجی حکومت کی طرف سے ابھیشیک منو سنگھوی نے دلیل دی ہے کہ سی بی آئی سرینڈرکرنے کا مطالبہ کررہی ہے۔ اس پرعدالت نے سی بی آئی کواحکامات دیئے ہیں کہ راجیو کمارکوگرفتارنہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد ممتا بنرجی کا کہنا ہے کہ راجیوکمارنے کبھی ایسا نہیں کہا ہے کہ وہ سی بی آئی کے سامنے نہیں آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ایسی جگہ پرملنا چاہتے ہیں، جو دونوں کے لئے مفید ہو۔ اگر آپ کوکوئی وضاحت چاہئے تو آپ آکرپوچھ سکتے ہیں، ہم اس پرتبادلہ خیال کرسکتے ہیں۔ سپریم کورت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ راجیو کمارکوسی بی آئی کے سامنے آنا ہوگا، لیکن راجیوکمارکوگرفتارنہیں کیا جاسکتا ہے۔
ممتا بنرجی نے کہا کہ ‘عدلیہ پرہمارا مکمل یقین ہے۔ اس سے افسران کی خوداعتمادی میں اضافہ ہوگا۔ ہرریاست میں ایک منتخب حکومت ہے، ریاستوں اورمرکز کی اپنی الگ الگ سرحدیں ہیں، اگرمرکز کی مشینری اسٹیٹ کی کمیشنری کو گرفتارکرنے آئے توہم روکیں گے نہیں، لیکن یہ ایک آئینی رکاوٹ تھی’۔
West Bengal CM Mamata Banerjee on SC will direct the Police Commissioner, Kolkata to make himself available&fully cooperate: Rajeev Kumar never said he'll not be available. He said we want to meet at mutual place,if you want to ask for any clarification, you can come & we can sit pic.twitter.com/5gLZ4lBi2o
— ANI (@ANI) February 5, 2019
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے ڈی جی پی، چیف سکریٹری اورراجیوکمارکے خلاف ہتک عزت کی کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس پرانہیں روکتے ہوئے چیف جسٹس رنجن گوگوئی نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا کہ پولیس کمشنرراجیوکمارکے پاس جانچ میں تعاون نہیں کرنے کی کوئی وجہ ہونی چاہئے۔ عدالت کی توہین کولے کرہم بعد میں غورکریں گے۔
اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے سپریم کورٹ میں کہا کہ معاملہ سی بی آئی کودیا گیا تھا۔ سی بی آئی نے ثبوت جمع کئے۔ 2014 سے 2017 کے درمیان ثبوت جمع کرنے کے بعد ہم گرفتاری کے لئے آگے بڑھے۔ ہم نے ایس آئی ٹی کوسمن بھیجے کیونکہ ہمیں دیئے گئے ثبوت پورے نہیں تھے، یا ان کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تھی۔ انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ ہم نے مغربی بنگال کے ڈی جی پی سے کہا کہ وہ جانچ میں مدد کریں۔ راجیوکمارایس آئی ٹی کے سربراہ تھے۔ ہم نے ڈی جی پی سے تفصیل طلب کی کیونکہ ایس آئی ٹی سے ملے دستاویزپرہمیں شک تھا۔