مسلمانوں کی نمائندگی کے نام نہاد دعویداروں کی خاموشی معنٰی خیز
حیدرآباد۔ سکریٹریٹ میں مساجد کی شہادت کے معاملہ میں ریاستی حکومت کی جانب سے مشیر برائے اقلیتی امور جناب اے کے خان سے بھی مشاورت نہیں کی گئی !شہر کے ذمہ داروں اور فکر رکھنے والوں کی جانب سے اب یہ سوال اٹھایا جانے لگا ہے کہ آخر حکومت کی جانب سے کن عمائیدین ملت اسلامیہ سے مساجد کی شہادت کے متعلق مشاورت کی گئی تھی کیونکہ سیکریٹریٹ کی مساجد کی شہادت کے دوسرے دن تلنگانہ راشٹر سمیتی کے قائدین بشمول مئیر مجلس بلدیہ عظیم تر حیدرآباد نے ایک پریس کانفرنس کے دوران اس بات کا دعوی کیا تھا کہ ریاستی حکومت نے مساجد کو شہید کرنے کے سلسلہ میں علماء اور ذمہ داروں سے مشاورت کی تھی اور اس سلسلہ میں چیف منسٹر نے کئی اہم شخصیتوں سے بات چیت کی ہے۔ ان کی اس پریس کانفرنس کے بعد علماء کے کئی گوشوں کی جانب سے اس بات کی نفی کی گئی ہے کہ ان سے کسی نے کوئی بات چیت نہیںکی ۔ شہر حیدرآباد اور ریاست تلنگانہ میں مسلمانوں کی نمائندگی کے نام نہاد دعوے دارو ںکی جانب سے ریاستی حکومت کی اس کاروائی کیلئے صدرنشین وقف بورڈ الحاج محمد سلیم کو ذمہ دار قرار دیا جار ہاہے جبکہ انہیں صدارت سے ہٹانے کے علاوہ ان کی جگہ جناب عبدالقیوم خان مشیر برائے اقلیتی امور حکومت تلنگانہ یا جماعت اسلامی کے سابق امیر جناب ملک معتصم خان کو وقف بورڈ کا صدر بنانے کی تجویز پیش کی جا رہی ہے۔
سیکریٹریٹ کی مساجد کی شہادت کی ذمہ داری ریاستی حکومت کی ہے تو ریاستی حکومت کی حلیف سیاسی جماعت کی بھی اتنی ہی ذمہ داری ہے ۔ اسی طرح تلنگانہ راشٹر سمیتی میںموجود اقلیتی قائدین کے ساتھ ساتھ ریاستی اقلیتی امور کے مشیر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے عہدیدار جناب اے کے خان کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس سلسلہ میں چیف منسٹر تلنگانہ مسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو ریاست کے مسلمانوں کے احساسات سے واقف کرواتے ہوئے مساجد کی دوبارہ اسی مقام پر تعمیر کو یقینی بنانے کے اقدامات کریں ۔ بتایاجاتا ہے کہ مشیر برائے حکومت تلنگانہ برائے اقلیتی امور کے علاوہ تلنگانہ راشٹر سمیتی کے مسلم قائدین کو بھی ان حالات میں عوامی برہمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور اگر وہ ریاستی حکومت کی جانب سے کی جانے والی اس حرکت پر اسی طرح خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں تو یہ محسوس کیا جائے گا کہ حکومت نے مساجد کی شہادت سے قبل انہیں اعتماد میں لینے کے لئے اقدامات کئے ہیں۔