مخالفت میں دائر درخواستیں مسترد، انہدام کیلئے ماحولیاتی اجازت ضروری نہیں
حیدرآباد: سکریٹریٹ کی قدیم عمارتوں کے انہدام کے سلسلہ میں حکومت کو دوسری مرتبہ آج ہائی کورٹ میں کامیابی حاصل ہوئی ۔ چیف جسٹس راگھویندر سنگھ چوہان اور جسٹس وجئے سین ریڈی پر مشتمل ڈیویژن بنچ نے انہدام کے خلاف دائر کردہ درخواستوں کو مسترد کردیا اور قدیم عمارتوں کے انہدام کو ہری جھنڈی دکھادی۔ پروفیسر پی ایل وشویشور راؤ نے قدیم عمارتوں کے انہدام کو چیلنج کیا تھا۔ پہلے مرحلہ میں یہ درخواستیں مسترد کردی گئی تھیں، تاہم انہدامی کارروائی کے آغاز کے بعد دوبارہ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی گئی اور شکایت کی گئی کہ انہدام سے قبل حکومت نے ضروری منظوری حاصل نہیں کی ہے۔ حکومت کی جانب سے کہا گیا کہ نئی عمارت کی تعمیر کیلئے اجازت کی ضرورت ہے جبکہ عمارت کے انہدام کیلئے ماحولیاتی اجازت کی ضرورت نہیں۔ صبح میں عدالت نے فریقین کی سماعت کی اور دوپہر کے بعد فیصلہ سنایا ۔ عدالت نے حکومت سے تفصیلی رپورٹ حاصل کرنے کیلئے دو مرتبہ حکم التواء میں توسیع دی تھی۔ آج درخواستوں کو مسترد کئے جانے کے بعد عمارتوں کے انہدام کی راہ ہموار ہوچکی ہے۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ 2016 ء کو جاری کردہ اعلامیہ میں واضح کیا گیا کہ تعمیری کام کیلئے اجازت اور کلیئرنس کی ضرورت ہے۔ عدالت نے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ اور وباء سے متعلق قانون کی خلاف ورزی کے استدلال کو قبول نہیں کیا۔ ایڈوکیٹ جنرل بی ایس پرساد نے بتایا کہ انہدامی کارروائی پر مذکورہ قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اسسٹنٹ سالیسٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سکریٹریٹ کی قدیم عمارتوں کے انہدام کیلئے مرکز سے اجازت ضروری نہیں ہے۔ صرف نئی تعمیرات کیلئے اجازت درکار ہے۔ ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ تعمیری کاموں کے آغاز کے وقت مرکز سے اجازت حاصل کی جائیگی ۔ عدالت نے اسسٹنٹ سالیسٹر جنرل کے استدلال سے اتفاق کیا کہ انہدام کیلئے وزارت ماحولیات سے اجازت کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈیویژن بنچ نے انہدام کے سلسلہ میں ریاستی کابینہ کے فیصلہ کو درست قرار دیا اورکہا کہ تمام ضروری اجازت کے حصول کے بعد انہدامی کارروائی کی جارہی ہے۔ عدالت نے کورونا وباء کے پس منظر میں انہدامی کارروائی روکنے کے استدلال کو قبول نہیں کیا۔ عدالت نے کہا کہ موجودہ عمارتوں کے انہدام اور ان کی جگہ نئی عمارتوں کی تعمیر سے متعلق کابینہ کے فیصلہ کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ عدالت نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ کووڈ۔19 کے قواعد پر عمل کرتے ہوئے انہدامی کارروائی انجام دے۔ پی ایل وشویشور راؤ کے علاوہ سی ایچ سدھاکر نے مفاد عامہ کے تحت درخواستیں داخل کی تھیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مرکزی وزارت ماحولیات سے اجازت کے بغیر انہدامی کارروائی انجام دی جارہی ہے ۔ عدالت نے اس سلسلہ میں اسسٹنٹ سالیسٹر جنرل سے وضاحت طلب کی ۔ حکومت نے عدالت کو بتایا کہ 80 فیصد انہدامی کام مکمل ہوچکا ہے۔ عدالت نے واضح کردیا کہ حکومت کو قدیم عمارتوں کے انہدام اور نئی عمارت کی تعمیر کا اختیار حاصل ہے۔ واضح رہے کہ سابق میں انہدام کی اجازت کے ساتھ ہی چیف سکریٹری اور ڈائرکٹر جنرل پولیس کی نگرانی میں انہدامی کارروائی کا آغاز کیا گیا تھا۔ سکریٹریٹ کے ایک کیلو میٹر حدود میں ناکہ بندی کردی گئی اور کسی کو انہدامی کارروائی کے مشاہدہ کی اجازت نہیں ہے۔