مسلمانوں کے جذبات نظرانداز، چیف منسٹر ملاقات کیلئے تیار نہیں، مساجد سے زیادہ عہدوں اور آمدنی کو ترجیح
حیدرآباد۔ سکریٹریٹ کے احاطہ میں دو مساجد کو شہید ہوئے آج ایک ماہ مکمل ہوچکا ہے لیکن مسلم مذہبی اور سیاسی قائدین مساجد کی بازیابی میں کوئی عملی اقدام کرنے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ انتخابات میں ٹی آر ایس کی تائید کرتے ہوئے تشکیل حکومت کے بعد سرکاری عہدے تائید کے عوض میں حاصل کرنے والے قائدین سے مسلمان مایوس ہوچکے ہیں۔ مسجد کی شہادت کو ایک ماہ گذر گیا لیکن قیادتیں صرف اخباری بیانات تک محدود ہیں اور ان کے بیانات کا چیف منسٹر پر کوئی اثر دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ حد تو یہ ہوگئی کہ کے سی آر انتخابات میں تائید کرنے والے افراد کو ملاقات کا وقت دینے تیار نہیں۔ دراصل وہ سکریٹریٹ کے نئے کامپلکس کی تعمیر میں کوئی رکاوٹ نہیں چاہتے اور موجودہ مقامات کو مساجد کیلئے مختص کرنا پلان کے مطابق ممکن نہیں ہے لہذا وہ اس مسئلہ پر کسی سے ملاقات کیلئے تیار نہیں ہیں۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سے گرین سگنل ملتے ہی سکریٹریٹ کی قدیم عمارتوں کے انہدام کا آغاز ہوا تھا اور 7 جولائی کی آدھی رات کو خصوصی پوجا کے بعد انہدامی کارروائی شروع کی گئی۔ رات کی تاریکی میں دو مساجد مسجد ہاشمی اور مسجد دفاتر معتمدی کے علاوہ ایک مندر کو منہدم کردیا گیا۔ اس کارروائی کو انتہائی راز میں رکھا گیا لیکن روز نامہ ’سیاست‘ کے انکشاف کے بعد عوام کو اس کے بارے میں علم ہوا۔ مساجد کے خدمت گذاروں کی شکایت ہے کہ انہیں انہدام سے قبل قرآن مجید کے نسخے، دینی کتب اور جانمازیں نکالنے کی اجازت نہیں دی گئی۔ اطلاعات کے مطابق یہ تمام ملبہ میں دب گئے اور ملبہ کی منتقلی کے ساتھ مقدس کتابوں کو کسی نامعلوم مقام پہنچادیا گیا۔ مسجد کے مستقل موذن اور امام کو آج تک سکریٹریٹ کے احاطہ میں داخلہ کی اجازت نہیں ہے۔ دونوں مساجد وقف درج رجسٹر ہیں لیکن انہدام سے قبل حکومت نے وقف بورڈ کو کوئی اطلاع نہیں کی۔ مساجد کی شہادت کے بعد سے مسلمان بے چین ہیں اور ان کا مطالبہ ہے کہ کے سی آر حکومت دوبارہ اسی مقام پر مساجد کی تعمیر کرے۔ انہدام سے متعلق خبر عام ہونے کے بعد چیف منسٹر نے مسلمانوں کے غصہ کو کم کرنے کیلئے بیان جاری کیا جس میں عبادت گاہوں کے انہدام پر افسوس اور ندامت کا اظہار کرتے ہوئے یہ استدلال پیش کیا گیا کہ دوسری عمارت کا ملبہ گرنے سے عبادت گاہوں کو معمولی نقصان ہوا ہے۔ اگر چیف منسٹر کے اس استدلال کو قبول کرلیا جائے تو پھر معمولی نقصان کی مرمت کی جانی چاہیئے تھی برخلاف اس کے تینوں عبادت گاہوں کو زمین دوز کرتے ہوئے ان کے نشانات بھی ختم کردیئے گئے۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ مندر کے انہدام سے قبل چیف سکریٹری و ڈائرکٹر جنرل پولیس نے نہ صرف خصوصی پوجا کی بلکہ مورتیوں کو پورے احترام کے ساتھ محفوظ مقام منتقل کیا گیا۔ مساجد کے معاملہ میں احترام کو ملحوظ رکھنے کے بجائے عام عمارتوں کی طرح منہدم کرتے ہوئے مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا ہے۔ کے سی آر ہمیشہ تمام مذاہب کے احترام کا دعویٰ کرتے ہیں اور خود کو نظام حیدرآباد کی طرح روادار حاکم جتلانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتے لیکن مساجد کا جس انداز میں انہدام کیا گیا اس سے ان کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوتے ہیں۔ حکومت کی تائید کرنے والی مقامی جماعت اور مذہبی تنظیموں پر مشتمل یونائٹیڈ مسلم فورم کے علاوہ حکومت کی تائیدی دیگر مسلم جماعتوں نے ایک ماہ کے دوران ایک معمولی مظاہرہ تک نہیں کیا بلکہ صرف بیانات کے ذریعہ مسلمانوں کو نیند کی گولیاں دی جارہی ہیں۔ تائید کے عوض میں مقامی جماعت کو کونسل کی 2 نشستیں دی گئیں اور مختلف سرکاری اداروں میں ان کے سفارشی افراد کو شامل کیا گیا۔ اس کے علاوہ فورم اور بعض دیگر مذہبی جماعتوں کے نمائندوں کو بھی تائید کے صلہ میں مختلف سرکاری اداروں کے عہدے دیئے گئے لیکن عہدوں کی برقراری اور ان سے ہونے والی لاکھوں روپئے کی آمدنی اس قدر عزیز ہوچکی ہے کہ انہیں مساجد کی بازیابی سے کوئی دلچسپی نہیں۔ اطلاعات کے مطابق سرکاری عہدوں پر فائز افراد عہدے چھوڑنے کے مسئلہ پر بات کرنے تیار نہیں ہیں۔ مذہبی شخصیتوں کیلئے جب معمولی اور حقیر سرکاری عہدے اور ان کی آمدنی مساجد سے زیادہ اہمیت کے حامل بن جائیں تو پھر شہید کردہ مساجد کی بازیابی کے بیانات محض کسی دھوکے اور دکھاوے سے کم نہیں۔