روش کمار
اسرائیل۔ فلسطین جنگ میں تباہی و بربادی کا سلسلہ جاری ہے۔ اسرائیل نے غزہ کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ غزہ میں انسانیت مررہی ہے، انسانیت کو مارا جارہاہے اور دنیا بڑی بے بسی کے ساتھ مرتی ، تڑپتی اور بلکتی انسانیت کو دیکھ رہی ہے۔ اس جنگ کادردناک بلکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اقوام متحدہ جیسی عالمی تنظیمیں بھی چاہتے ہوئے کچھ نہیں کرپارہی ہیں۔ امریکہ جیسی بڑی طاقت اور اس کے حلیف ملک اسرائیل کی تائید و حمایت پر اُتر آئے ہیں، ایسے میں انسانیت توقع کرسکتی ہے کہ جو عالمی تنظیمیں بے بس ہیں وہ بھی آوازیں بلند کرسکتی ہیں اور جنگ روکنے میں اقوام متحدہ اور اس کے بنائے ہوئے قانون بھلے ہی غیر کارکرد ہوگئے ہیں لیکن اسی تنظیم یعنی اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹوینو گوٹیرس کے خطاب نے اقوام متحدہ کو کم از کم تھوڑے سے وقفہ کیلئے آواز اُٹھانے والی تنظیم بنادیا۔ اقوام متحدہ کی ایجنسیاں کہہ رہی ہیں کہ امداد پہنچانے کیلئے گھٹنوں پر جھک کر مانگ کی جارہی ہے، فی الوقت جو مدد پہنچائی جارہی ہے اس سے 30 گنا زیادہ امداد پہنچانے کی ضرورت ہے۔ دنیا میں شائد ہی یقین ہو کہ جنگ رکوانے یا جنگ بندی میں اقوام متحدہ کا کوئی کردار بچا ہو مگر اب تو امداد پہنچانے کے کام میں بھی اس کا کردار محدود ہوتا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اپنے خطاب کے بعد ٹوئیٹ کردیا کہ حماس کا حملہ یوں ہی نہیں ہوا مگر یہ بھی ٹوئیٹ کیا کہ فلسطینیوں کو بھی شکایت ہے، اس کا مطلب یہ نہیں ہوا کہ حماس کا حملہ صحیح ہے۔ اسرائیل پر جو حملہ ہوا ہے اس کے بہانہ آپ انتقامی اور تباہ کن حملہ کو صحیح نہیں کہہ سکتے، یہ بھی انٹوینو گوٹیرس کے خطاب کا حصہ تھا۔
اسرائیل نے اقوام متحدہ کے خلاف محاذ کھول دیا لیکن اسرائیل قطر کی تعریف کیوں کرنے لگا ہے ہم آگے اس پر بھی کچھ بتائیں گے۔ نیویارک میں موجود اسرائیل کے وزیر خارجہ نے گوٹیرس کے خطاب کے بعد ٹوئیٹ کیا کہ وہ گوٹیرس سے ملاقات نہیں کریں گے۔ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے نامہ نگاروں سے کہا کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کا بیان ناقابل فہم ہے اور انہوں نے سکریٹری جنرل اقوام متحدہ سے استعفے کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ انٹوینو گوٹیرس دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ اقوام متحدہ میں اسرائیل کے سفیر نے کہا ہے کہ اقوام متحدہ میں اس کے سکریٹری جنرل کے بیان کے بعد اسرائیل‘ اقوام متحدہ کے عہدیداروں کو ویزے نہیں دے گا۔ اسرائیل نے اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کے معاملات کے انڈر سکریٹری کو ویزہ دینے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سبق سکھانے کا وقت آگیا ہے۔ جن پر حقوق انسانی کے تحفظ اور اس کیلئے امداد پہنچانے کی ذمہ داری ہے اسرائیل ان ہی ذمہ داروں کو اسرائیل۔ حماس کا حامی بتارہا ہے۔ اسی اقوام متحدہ کے اجلاس میں امریکہ کے معتمد خارجہ نے کہا کہ جو شہری ہیں وہ شہری ہیں فلسطینی شہریوں کی حفاظت ہونی چاہیئے، یہ باتیں سننے میں اچھی لگتی ہیں وہی امریکہ اسرائیل کو ہتھیاروں کی سربراہی کرتا ہے تاکہ حملہ جاری رہے۔ امریکہ صرف بیان دے رہا ہے یا نصیحت کررہا ہے؟ جنگ کے جرائم کے اصول تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جو بھی اس میں شامل ہوتا ہے ، جو ہتھیار دیتا ہے وہ بھی اس جرم میں شامل رہتا ہے تو کیا امریکہ خود کو اسرائیل کے ساتھ جنگ کا خاطی مانتا ہے؟ سب اپنی اپنی سوچ رہے ہیں غزہ کے بارے میں کوئی نہیں سوچتا۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کے بیان سے کوئی متاثر ہوا، کیا کوئی نام آپ کو نظر آیا ؟ غزہ پٹی میں اقوام متحدہ کے پناہ گزین کیمپوں میں6 لاکھ لوگ پناہ لئے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ ان پناہ گزین کیمپوں میں ایندھن نہیں ہے۔ اسرائیلی فورس اب ان پناہ گزین کیمپوں کو بھی نشانہ بنارہی ہے۔ یو این آر ڈبلیو اے اقوام متحدہ کی ایجنسی کو پلٹ کر جواب دینے لگی ہے۔
یو این آر ڈبلیو اے نے جب 24 اکٹوبر کی رات ٹوئٹر پر لکھا کہ 25 اکٹوبر کی رات تک ہمارے پاس ایندھن نہیں بچے گا جس کی وجہ سے ہمیں امدادی کاموں کو روکنا پڑے گا۔ اگر ایندھن نہیں ملا تو کل رات تک غزہ میں راحت کا کام رُک جائے گا۔ اس پر اسرائیل کی ڈیفنس فورس نے یو این آر ڈبلیو اے کے ٹوئیٹ کو ایک ڈرون کی تصویر کے ساتھ ری ٹوئیٹ کیا کہ یہ حماس کے فیول ٹینک ہیں اس میں 5 لاکھ لیٹر سے زیادہ ایندھن ہے، حماس سے پوچھو کہ کیا آپ کے پاس تھوڑا سا ایندھن مل سکتا ہے۔ اسرائیل کو نظر آنے لگا ہے کہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے فلسطین کو دنیا کے پہلے صفحات پر پہنچادے گا جن صفحات پر زیادہ تر اسرائیل کے تئیں حمایت نظر آتی ہے اسرائیل کا ہی نقطہ نظر آتا ہے۔ راحت و بچاؤ کاری میں اقوام متحدہ کے 35 اہلکار مارے گئے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے اپنے خطاب میں اس نبض پر ہاتھ رکھ دیا جس پر اسرائیل مسلسل پردہ ڈالنے کی کوشش کررہا ہے۔ گوٹیرس نے کہا کہ اس جنگ کی وجہ سے معاشرہ میں نفرت اور تناؤ تیزی سے پھیل رہے ہیں اور معاشرہ تقسیم ہورہا ہے اس لئے ہمیں اُصولوں کو لیکر سنجیدہ و چوکس رہنا پڑے گا اور اس کی شروعات شہریوں کے تحفظ اور وقار کے اہم اُصولوں سے ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ سبھی یرغمالیوں کے ساتھ بہتر سلوک ہونا چاہیئے اور بناء شرط انہیں رہا کیا جانا چاہیئے اور یہ بھی قبول کرنا چاہیئے کہ حماس کا حملہ یوں ہی نہیں ہوا ہے 56 سال سے فلسطین کے لوگوں کو یرغمال بنایا گیا ہے، وہ دَم گھٹنے والے حالات میں رہنے پر مجبور کئے گئے ہیں، ان لوگوں نے دیکھا کہ ان کی زمین کوئی کس طرح سے نگلتا جارہا ہے۔ یہاں کے لوگ پہلے ہی دہشت گردی سے متاثر ہیں، ان کی معاشی حالت کی گردن مروڑ دی گئی ہے، ان کے لوگوں کو بیدخل ہونا پڑا ہے، ان کے گھروں کو زمین دوز کردیا گیا ہے، ان کی اُمیدیں تیزی سے ختم ہوتی جارہی ہیں کہ کیا دُکھ کا سیاسی حل ہو بھی سکتا ہے۔
جنگ کے اپنے اُصول ہوتے ہیں ہمیں مانگ کرنی چاہیئے کہ سبھی فریق بین الاقوامی انسانی حقوق سے متعلق خواتین کا احترام کریں، اسپتال اور اقوام متحدہ کی عمارتوں کا احترام کریں جہاں اس وقت 6 لاکھ فلسطینی مقیم ہیں۔ شہریوں کی حفاظت کا مطلب یہ نہیں کہ 10 لاکھ لوگوں سے آپ جگہ خالی کرکے شمالی حصہ میں جانے کیلئے کہیں جہاں نہ آسرا ہے نہ پانی ، نہ دوا ہے اور نہ ایندھن۔ اسرائیل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ غزہ میں ایندھن کی قلت ہے وہ کہتا جارہا ہے کہ حماس کے پاس کافی ایندھن ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس پر حملہ کیلئے اقوام متحدہ اور شہریوں کا ایندھن حماس نے چُرایا ہے۔ وہائیٹ ہاوز نے کہا کہ غزہ میں ایندھن لے جانے کی اجازت دی جانی چاہیئے۔ امریکی عہدیدار جان کربی کا کہنا ہے کہ ہم ایندھن کو لیکر اسرائیل کی بات سمجھتے ہیں مگر غزہ میں ایندھن پہنچایا جانا چاہیئے یہ بہت ضروری ہے۔ 24 اکٹوبر کو رفح کراسنگ سے کوئی امداد نہیں پہنچائی جاسکی۔25 اکٹوبر کو پھر سے20 ٹرکس امدادی سامان لیکر روانہ ہوئے۔ اقوام متحدہ کی ویب سائیٹ پر لکھا ہے کہ اس کی تنظیم WHO ایندھن ، دوا اور پانی کے شمالی غزہ کے اسپتالوں تک نہیں پہنچا پارہی ہے کیونکہ سلامتی کی کوئی ضمانت نہیںہے۔ WHO نے مطالبہ کیا کہ فوری جنگ بندی ہو تاکہ راحت و امدادی سامان غزہ میں پہنچایا جاسکے۔ 7 اکٹوبر سے پہلے ہر دن 100 ٹرک امدادی سامان لیکر جاتے تھے حملہ کے دو ہفتہ کے بعد پہلی بار 20 ٹرکس ہی جاسکے۔ یو این نے کہا کہ غزہ کی دو تہائی طبی اکائیاں کام کرنا بند کرچکی ہیں ان میں 35 میں سے 12 اسپتال شامل ہیں۔
کئی بار ایسا لگتا ہے کہ اسرائیل اس لئے بھی زیادہ بمباری کررہا ہے تاکہ دھماکوں کی آواز میں فلسطین کی آواز گم ہوجائے مگرایسا نہیں ہوا بلکہ ہر جگہ پھر سے شائع ہونے لگا ہے کہ 1917 میں فلسطین کے ساتھ کیا ہوا، 1945 میں کیا ہوا، 1967 میں فلسطین کے ساتھ کیا ہوا، 2008 میں کیا ہوا اور 2023 میں فلسطین کے ساتھ کیا ہورہا ہے؟۔ پچھلے 24 گھنٹوں میں غزہ میں 700 لوگ مارے گئے اس سے پہلے کے 24 گھنٹوں میں 400 فلسطینی مارے گئے، اب غزہ میں مرنے والوں کی تعداد 7 ہزار سے زائد ہوگئی۔20 ہزار کے قریب لوگ زخمی بتائے گئے ہیں۔ حماس کے حملے میں 1400 اسرائیلی مارے گئے، اسرائیل اس تعداد کو جتنی مضبوطی سے چھپاتا ہے وہیں پر یہ تعداد بھی شائع کردی جارہی ہے۔ غزہ میں حماس حکومت کے محکمہ صحت نے کہا کہ ایک دن قبل اسرائیل کے حملہ میں 700 فلسطینی شہید ہوئے۔ اس کا کہنا ہے کہ 18 دن کے حملے میں5791 فلسطینی اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے جن میں 2360 بچے شامل ہیں۔ رائٹرس نے لکھا ہے کہ وہ آزادانہ طور پر اس تعداد کی تصدیق نہیں کرسکتے۔ مغربی کنارہ کے جنین میں ڈرون حملہ کے بعد اب تک ملبہ سے نعشیں مل رہی ہیں۔ 7 اکٹوبر سے اب تک مغربی کنارہ میں اسرائیلی حملوں میں 100 سے زائد فلسطینیوں کی موت ہوگئی، اسپتال کام کرنا بند کررہے ہیں اور یہاں نصیحتوں اور بیانات کا کھیل چل رہا ہے۔اسرائیل سے واپس ہوکر امریکی صدر جوبائیڈن نے کہا تھا کہ وہ اسرائیل اس لئے گئے تھے تاکہ غزہ میں امداد پہنچانے کا راستہ نکل سکے اور اس میں کامیاب رہے لیکن 18 اکٹوبر کو ان کے دورہ کے بعد 25اکٹوبر آگئی ایک ہفتہ میں بھی امدادی کام رُکا ہوا ہے یہ امریکہ کی کامیابی ہے ؟ اگر آپ اسے امریکہ کی کامیابی مانتے ہوں تو آپ کو امریکی صدر خود کہہ رہے ہیں کہ امدادی کام تیز نہیں۔ یوکرین۔ روس جنگ کے دوران امریکہ روس پر مسلسل پابندیاں عائد کرتا جارہا تھا۔ فروری 2022 سے لیکر اب تک وہ روس پر 2200 سے زائد پابندیاں عائد کرچکا ہے مگر یہاں اس کا کردار الگ نظر آتا ہے یہاں وہ اسرائیل کا دوست بھی بن رہا ہے اور غزہ کے فلسطینیوں کا ہمدرد بھی۔ امریکہ نے اب تک کچھ بھی ایسا نہیں کہا، یا انتباہ نہیں دیا ہے جس سے اسرائیل پر روک لگے۔ آخر امریکہ کا انتباہ کب کام آئے گا۔ 18اکٹوبر کو جب برازیل نے قرارداد پیش کی کہ انسانی امداد کیلئے جنگ روک دی جائے تب امریکہ نے مخالفت کی ، اب وہی امریکہ کہہ رہا ہے کہ انسانی امداد کیلئے جنگ روک دی جائے ۔