محمد مصطفی علی سروری
اتوار 25؍ اگست 2019ء چھٹی کا دن تھا۔ ایرناکلم کیرالا کے ٹائون ہال میں ایک پروگرام ہو رہا تھا جس میں کیرالا کے وزیر اعلیٰ پینا رائی وجین بھی موجود تھے۔ اسی ہال کے باہر ایک کمسن لڑکی بھی کھڑی تھی جو چیف منسٹر سے ملنا چاہتی تھی۔ جس وقت کیرالا کے چیف منسٹر پروگرام ختم کر کے ہال کے باہر اپنی گاڑی میں بیٹھنے جارہے تھے تب یہ چھوٹی بچی ان کے پیچھے دوڑی۔ چیف منسٹر نے پلٹ کر دیکھا تو بچی کو قریب بلا لیا تب اس 10 برس کی لڑکی نے چیف منسٹر کو اپنی طرف سے اپنا Piggy بینک (پیسے جمع کرنے کا غلہ) ان کے حوالے کردیا اور کہا کہ وہ یہ سارے پیسے سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے سی ایم ریلیف فنڈ میں دینا چاہتی ہے۔ چیف منسٹر نے اس چھوٹی سی بچی کے اس جذبہ کی ستائش کی اور اس کی پیٹھ تھپتھپائی اور اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگے۔ عین اسی وقت چیف منسٹر کو رکنے کا اشارہ کرتے ہوئے لڑکی نے اپنے دونوں کان سے بالیاں اتار کر چیف منسٹر کے حوالے کردیا اور کہا کہ ان بالیوں کو بھی وہ ریلیف فنڈ میں بطور عطیہ دینا چاہتی ہے۔ قارئین ویسے تو بچوں کی جانب سے کار خیر میں حصہ لینا نئی بات نہیں لیکن ایک لڑکی نے جب اپنے کان کی بالیاں بھی بطور عطیہ ریلیف فنڈ میں دے دیا تو کیرالا کے وزیر اعلیٰ بھی اس معصوم لڑکی کی انسانی ہمدردی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے۔ اسی شام یعنی 25؍ اگست 2019 کو کیرالا کے چیف منسٹر نے اپنے فیس بک پر لکھا کہ ’’آج میںایک پروگرام میں شرکت کرنے کے بعد لوٹ رہا تھا تب ایک چھوٹی سی لڑکی نے مجھے نہ صرف اپنی بچت کی ساری رقم سیلاب ریلیف کے کاموں کے لیے بطور عطیہ دے دی بلکہ اس معصوم لڑکی نے تو اپنے کان کی بالیاں بھی سی ایم ریلیف فنڈ میں دے دی۔
کیرالا کے چیف منسٹر نے مزید لکھا کہ اس کم سن لڑکی کے جذبہ خیر سگالی کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ (بحوالہ چیف منسٹر کیرالا فیس بک پیج۔ بتاریخ 25؍ اگست 2019)
کیرالا کی یہ لڑکی کون ہے جس نے اپنے جیب خرچ کی ساری رقم ریلیف فنڈ میں دے دی یہاں تک کہ اپنے کان کی بالیاں بھی سیلاب متاثرین کی مدد میں عطیہ دے ڈالا۔ 26؍ اگست کے اخبارات نے لکھا کہ فورتھ کلاس کی اس لڑکی کا نام لینا ہے اور یہ پہلا موقع نہیں ہے جب اس معصوم نے سی ایم ریلیف فنڈ میں عطیہ دیا ہے۔ گذشتہ برس کے سیلاب کے بعد بھی اس لڑکی نے اپنی بچت کو سیلاب متاثرین کے لیے دے دیا تھا۔
قارئین اس سارے واقعہ میں جس اہم نکتہ کی جانب آپ حضرات کی توجہ مبذول کروانامقصود ہے وہ لینا نام کی چوتھی جماعت کی لڑکی ہے جو مسلمان نہیں اور پھر بھی کار خیر میں حصہ لے رہی ہے۔
آیئے اب میں ایک دوسرے واقعہ سے آپ حضرات کو واقف کروانا چاہتا ہوں۔
5؍ اگست 2019 رات کے ایک بج کر 50 منٹ ہوا چاہتے ہیں۔ دہلی سے رہنے والے ایک سردار جی جن کا نام ہرمیندر سنگھ اہلوالیہ ہے ،اپنے فیس بک پیج پر Live ویڈیو پیغام جاری کئے ہیں۔ سردار ہرویندر سنگھ نے کہا کہ کشمیر کے حالات سنگین ہیں۔ اس لیے میں ویڈیو پیغام دے رہا ہوں۔ ایک سردار جی (سکھ) کا کردار کیسے ہوتا ہے اس کو واضح کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ضرورت مند کے کام آنا ہی اصل سکھ کی پہچان ہوتی ہے۔ ایسے میں جب کشمیر میں حالات خراب ہیں وہاں پر کرفیو لگ چکا ہے اور دن بھر کشمیر کے متعلق طرح طرح کی خبریں آرہی ہیں تو اپنے ویڈیو پیغام کے ذریعہ ہندوستان بھر میں موجود کشمیریوں کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہر سکھ آپ کی مدد کرے گا۔ ہرمیندر سنگھ اہلوالیہ اپنا تعارف کروانے کے بعد کہتے ہیں ہندوستان کے کسی بھی کونے میں اگر کشمیری پریشان ہوں تو اپنے قریبی گردوارہ سے رابطہ کریں۔ وہاں پر آپ کو لنگر ملے گا اور سیکوریٹی دی جائے گی۔ ہرمیندر سنگھ نے آدھی رات کے بعد جب فیس بک پر اپنا ویڈیو مسیج ریکارڈ کروایا اور فون نمبر بھی بتلایا تو دہلی کے رہنے والے اس شخص کو مہاراشٹرا کے شہر پونے سے فون کال آتی ہے اور فون کرنے والی ایک لڑکی اپنا تعارف کرواتی ہے کہ اس کا تعلق کشمیر سے ہے اور وہ اکیلی نہیں، اس کے علاوہ 31 اور بھی کشمیری لڑکیاں ہیں جو کشمیر کی بدلتی صورت حال پر پریشان ہیں اور واپس اپنے گھر جانا چاہتی ہیں۔ لیکن فون بند ہونے اور گھر والوں سے بات نہ ہونے کی وجہ سے کیا کریں انہیں سمجھ نہیں آرہا ہے۔
7 اگست کو رات کے 3 بج کر 5 منٹ پر سردار ہرمیندر سنگھ ایک مرتبہ پھر سے اپنے فیس بک پر ایک مسیج کے ذریعہ اپنے دوستوں سے اپیل کی وہ ان لڑکیوں کی بحفاظت گھر واپسی کو یقینی بنانے ان کیلئے Air Ticket کا انتظام کریں۔ سردار ہرویندر سنگھ نے یوں فیس بک پر اپیل کی اور پھر 32 لڑکیوں کی کشمیر واپسی کیلئے 4 لاکھ سے زائد روپیوں کا انتظام ہوگیا۔
قارئین سردار ہرمیندر سنگھ کے متعلق ان کی فیس بک پیج اور 21 ؍ اگست 2019 کے انڈین ایکسپریس میں ان کے متعلق شائع رپورٹ کو پڑھنے کے بعد میں نے بھی ان سے فون پر بات کی۔ میں نے ان سے تعارف پوچھا کہ آپ کون ہیں اور آپ سردار ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کی مدد کو کیوں آگے آئے۔ ہرمیندر سنگھ نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتلایا کہ وہ پیشہ سے ایک سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور گڑگائوں میں جاب کرتے ہیں۔ جہاں تک کشمیری مسلمانوں کی مدد کا سوال ہے تو ہرمیندر سنگھ نے بتلایا کہ ان کا مذہب انہیں ضرورت مندوں کی مدد کی تعلیم دیتا ہے۔ جب میں نے ہرمیندر سنگھ سے پوچھا کہ وہ تو کوئی NGO نہیں چلاتے، کوئی ان سے سوال بھی تو نہیں کرنے والا تھا کہ انہوں نے پریشان حال لڑکیوں کی مدد نہیں کی؟ ہرمیندر سنگھ نے بتلایا کہ کوئی پوچھے نہ پوچھے میرا ضمیر تو ضرور پوچھتا کہ کچھ انسان پریشان حال تھے تو تو نے مدد نہیں کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ آپ سکھوں کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیجیے۔ سکھوں نے ہمیشہ لوگوں کی مدد کی ہے۔ ہرمیندر سنگھ نے گرو تیج بہادر کی مثال دی کہ انہوں نے لال چوک میں اپنا سرکٹوادیا تھا صرف اور صرف ضرورت مندوں کے کام آنے کے لیے۔
میرا اگلا سوال ہرمیندر سے یہ تھا کہ 5 ؍ اگست کی آدھی رات کو فیس بک پر جاکر کشمیریوں کی مدد کا اعلان کرنے کا خیال کیسے آیا تو انہوں نے کہا کہ پلوامہ میں پیش آئے واقعہ کے بعد بھی ملک کے کئی مقامات پر کشمیریوں کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا اور 5 ؍ اگست کو بھی خبروں میں مسلسل یہی بتلایا جارہا تھا۔ کشمیر میں بڑی بھاری تعداد میں فوج اور نیم فوجی دستوں کو تعینات کردیا گیا تو ہمیں اندازہ ہوگیا تھا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے۔ ایسے میں فیس بک پر بھی کشمیریوں کے متعلق برا بھلا لکھا جانے لگا تھا تو میں نے اپنی ذمہ داری محسوس کی اور اپیل کی کہ ضرورت مند گردواروں اور سردار جی سے مدد لے سکتے ہیں۔ 32 کشمیری لڑکیوں کی مدد کے حوالے سے سردار ہرمیندر سنگھ نے بتلایا کہ فیس بک پر ان کا ویڈیو دیکھ کر رقیہ نام کی ایک لڑکی نے ان سے رابطہ کیا کہ وہ کشمیر کی 31 لڑکیوں کے ساتھ مہاراشٹرا کے پونے شہر میں ہے اور واپس جانا چاہتی ہے۔ بس رقیہ کی اس درخواست پر میں نے انہیں واپس بھجوانے کا انتظام کیا۔
32 لڑکیوں کو بذریعہ طیارہ واپس بھیجنے آپ نے پیسے کہاں سے جمع کیے؟ اس سوال پر سردار ہرمیندر سنگھ نے بتلایا کہ مجھے اپنی سکھ قوم پر بھروسہ تھا کہ ہم 24 گھنٹے میں پیسوں کا انتظام کرلیں گے۔ ایک سردار جی نے ہرمیندر سنگھ کو کہا کہ سارے ٹکٹ کے پیسے میں دے دیتا ہوں تم پیسے جمع ہونے کا انتظار مت کرو۔ یوں تقریباً 4 لاکھ کے صرفے سے 32ٹکٹ خریدے گئے۔ ہرمیندر سنگھ نے فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتلایا کہ جب وہ لوگ پونے سے سری نگر کے لیے ٹکٹ خرید رہے تھے تو 14 ٹکٹ تو 15 ہزار کے حساب سے بک ہوگئے مگر 15 ویں ٹکٹ کے لیے قیمت بڑھ گئی تھی اور ایک ٹکٹ 18 تا 20 ہزار میں آرہا تھا اس لیے ان لوگوں نے بقیہ لڑکیوں کے لیے ممبئی سے سری نگر کا ٹکٹ بک کیا۔ 14 لڑکیاں تو گھر واپسی کے لیے پونے سے ہی فلائٹ میں بیٹھ گئیں بقیہ لڑکیوں کو پونے کے سکھ نوجوانوں نے اپنی نگرانی میں ٹیکسیاں کرایہ پر حاصل کر کے ممبئی ایئرپورٹ تک پہنچایا۔ جہاں سے یہ لوگ بھی بذریعہ طیارہ دہلی پہنچیں اور وہاں پر ساری لڑکیوں کے ساتھ سردار ہرمیندر سنگھ اور ان کے چند احباب بھی شامل ہوگئے اور ان لوگوں نے 9؍ اگست کو کشمیری لڑکیوں کو سری نگر پہنچایا۔ جب وہاں پر کرفیو تھا تو فوج کی مدد لی اور خود ہرمیندر سنگھ نے ان لڑکیوں کا سامان گاڑیوں میں رکھ کر ان میں سے ہر ایک لڑکی کو اس کے گھر تک چھوڑا اور واپس دہلی پہنچے۔
ہرمیندر سنگھ نے مجھے ایک بڑی اچھی بات بتلائی کہ سر جی انسان ہی انسان کے کام آتے ہیں اور بطور سکھ دوسروں کے کام آنا میں اپنی ڈیوٹی سمجھتا ہوں۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ آپ پرانی تاریخ اٹھاکر دیکھیں، سکھوں نے ہمیشہ مصیبت کے وقت لوگوں کی مدد کی۔
قارئین یہ تو سردار ہرمیندر سنگھ کے ساتھ ہونے والی میری وہ بات چیت تھی جو میں نے فون پر کی تھی۔ لیکن ان کے ویڈیو مسیج کی وہ بات بھی مجھے بڑی اچھی لگی جو میں یہاں دوبارہ نقل کرنا چاہتا ہوں کہ کشمیری جب پریشان ہیں تو وہ اپنے کسی بھی قریبی گرودوارہ سے رابطہ کریں۔ ہر سکھ ان کی مدد کرے گا۔ انہیں لنگر دیا جائے گا اور انہیں سیکوریٹی دی جائے گی۔
قارئین آیئے ذرا اس واقعہ میں بھی غور کریں کہ مسلمان پریشان حال ہیں تو سکھ برادران وطن ان کی مدد کے لیے آدھی رات کو آگے آرہے ہیں۔ دو ایک روپئے نہیں لاکھوں کا خرچہ کر رہے ہیں۔ اپنے گرودواروں کے لنگر خانوں کے دروازے کھولنے تیار ہیں اور جب ملک کا ایک طبقہ کشمیری لڑکیوں کے متعلق نازیبا باتیں کر رہا ہے ملک کے سردار جی یقین دہانی کروا رہے ہیں کہ کشمیری اگر پریشان ہیں تو ہر سکھ ان کی حفاظت کرنے تیار ہے اور سیکوریٹی دینے تیار ہے۔
اور آیئے اب ہمارے اپنے دامن میں جھانکنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس ملک میں گرودواروں سے زیادہ مساجد ہیں۔ کیا میں اپنی مساجد کے متعلق اس طرح کی بات کرسکتا ہوں۔ ٹھیک ہے میں نہیں تو کیا کوئی مولانا ہی ایسی پیشکش کرسکتے ہیں کہ جو کوئی بھی پریشان ہیں وہ مسجد سے رجوع ہوسکتے ہیں۔ بلکہ وہ مسلمان جنہیں ہجومی تشدد کا خطرہ ہو تو وہ بھاگ کر مسجد میں بھی پناہ نہیں لے سکتے ہیں۔ ہماری مسجدوں میں تالے ملیں گے اور کسی کو بھی داخلہ سے پہلے اس کا مسلک پوچھا جائے گا اور اگر کوئی نماز کے علاوہ وقت میں مسجد میں جانا چاہے تو اس کو وہاں کھانا تو دور، دروازہ بھی کھلا نہیں ملے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلائے اور ہماری مساجد کو دین اسلام کی تبلیغ کے مراکز بنا دے۔ آمین ٭
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
[email protected]
