عرفان جابری
’’ہندوستان کی کسی ریاست میں برسراقتدار پارٹی کے بڑے علاقے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی، کافی مالی و جانی نقصان ہوا۔ چیف منسٹر پر دباؤ بڑھا کہ متاثرہ علاقے کا دورہ کرتے ہوئے متاثرین کیلئے ممکنہ حد تک سرکاری امداد کا اعلان کریں۔ چنانچہ چیف منسٹر نے متاثرہ علاقے کا دورہ کرنے کا فیصلہ کرلیا۔ یہ اطلاع اپوزیشن لیڈر کو دیتے ہوئے پرسنل اسسٹنٹ نے بتایا کہ متاثرہ علاقے کو موجودہ طور پر ہیلی کاپٹر سروے ہوسکتا ہے یا پھر قریبی علاقے تک ٹرین کا سفر کرتے ہوئے وہاں سے دیگر ذرائع نقل کے ذریعے متاثرین تک پہنچا جاسکتا ہے۔ چالاک و عیار اپوزیشن لیڈر نے فوری اپنے پی اے کو دو مختلف ردعمل ؍ بیانات لکھوائے … وہ یہ کہ اگر چیف منسٹر ہیلی کاپٹر سروے کا انتخاب کرتے ہیں تو صحافت کیلئے بیان جاری کردینا کہ پہلے ہی بے تحاشہ مالی نقصان ہوچکا ہے، اب چیف منسٹر کا ہیلی کاپٹر سروے پر سرکاری خزانے سے مزید خرچ کرنا کیا ضروری ہے۔ اب متاثرین کی امداد پر توجہ ہونا چاہئے نہ کہ وی وی آئی پی اس بہانے آسمانوں میں اُڑنے لگیں … اگر چیف منسٹر ٹرین کا سفر کریں تو بیان جاری کرنا کہ متاثرین مدد کیلئے بلک رہے ہیں، ان کو فوری امداد پہنچانے کے بجائے خود چیف منسٹر کچھوے کی چال چلتے ہوئے متاثرہ علاقے کی طرف نکل رہے ہیں۔‘‘
یہ موجودہ دور بالخصوص ہندوستان کی مختصر سیاسی تصویر ہے۔ اب برسراقتدار لیڈر ہونے کا مطلب آپ یا پارٹی چاہے کچھ کرو، بس اس کا دفاع کرتے جائیں۔ اپوزیشن کا مطلب، بلا سوچے سمجھے تنقیدیں کرتے رہنا۔ مہاراشٹرا میں شیوسینا۔ این سی پی۔ کانگریس مخلوط حکومت کی تشکیل پر بعض مسلم گوشوں سے اسی طرح کا ردعمل سامنے آرہا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ کانگریس نے سکیولرازم کی دھجیاں اڑا دیئے اور بی جے پی سے زیادہ کٹرہندوتوا پارٹی شیوسینا جس کے بانی بال ٹھاکرے نے کہا تھا کہ ان کو بابری مسجد گرانے پر فخر ہے، اُس سے نہ صرف اتحاد کیا بلکہ حکومت میں بھی حصہ داری حاصل کرلی۔ یہ اقتدار کی ہوس نہیں تو اور کیا ہے، وغیرہ۔ ایسے مسلمانوں کو یہ تو یاد ہے کہ بال ٹھاکرے نے کیا کہا تھا، مگر اس پر نظر نہیں جارہی کہ ہندو پارٹی (شیوسینا) سے ہندو پارٹیوں (این سی پی، کانگریس) نے اتحاد کیا۔ اس پر کیا کہیں گے کہ مہم کی اصل ذمہ دار بی جے پی کے ساتھ آج کئی مسلمان جڑ رہے ہیں اور کئی نامور قائدین جڑے بغیر ان کے اشاروں پر کام کررہے ہیں۔ کون ہمت کررہا ہے ان مسلم سیاسی گوشوں پر تنقید کی؟ ایسے مسلمانوں کا بی جے پی کی مدد کرنا قابل گرفت ہے یا مہاراشٹرا جیسی کافی اہم ریاست میں جسٹس لویا اور متعدد دیگر دور رس اثرات کے حامل مقدمات پڑے ہیں، بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کیلئے کانگریس و این سی پی کا شیوسینا کو حکومت بنانے میں بھرپور مدد دینا؟ حکومت کی باہر سے تائید مخصوص سیاسی موقعوں پر کی جاتی ہے۔ یہاں ناتجربہ کار چیف منسٹر ٹھاکرے کو صرف سینا قائدین کو لے کر حکومت چلانے کیلئے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس لئے، این سی پی اور کانگریس کا حکومت میں شامل ہونا بجا ہے۔ اب اسے کوئی اقتدار کی ہوس کہے تو پتہ نہیں بی جے پی کیلئے ’ہوس‘ سے آگے کا کونسا لفظ استعمال ہوگا؟
میں سکیولرازم کے بارے میں بات کرنے سے قبل مہاراشٹرا کے معلق اسمبلی انتخابی نتیجے کے ممکنہ صورتیں بتانا چاہوںگا۔ سب نے دیکھ لیا کہ جب بی جے پی نے اپنی دیرینہ حلیف سے دغا کی اور اس پر رعب جھاڑنا چاہا، تو عام طور پر کمزور سیاستداں سمجھے جانے والے اُدھو ٹھاکرے نے وزیراعظم مودی، صدر بی جے پی امیت شاہ جیسی قیادت کے خلاف ڈٹ جانے کا فیصلہ اور قدیم حلیف سے ناطہ توڑ لیا۔ اس کے بعد کس طرح صدر راج نافذ کیا گیا اور ’جوڑ توڑ ‘ کی کیسی تیاری چل رہی تھی، اسے بی جے پی نے دیویندر فڈنویس کو دوبارہ چیف منسٹر کا اور این سی پی لیڈر اجیت پوار کو ڈپٹی سی ایم کا حلف دلاتے ہوئے آشکار کردیا۔ شرد پوار کی قیادت میں اجیت پوار کی چال نہ چلی جاتی تو مجھے بتائیے کون سیانا کہے گا کہ مودی حکومت صدر راج برخاست کرتے ہوئے سینا زیرقیادت مخلوط حکومت کیلئے راہ فراہم کرتی۔ ممکنہ طور پر یہی ہوتا کہ مہاراشٹرا پر راست طور پر نہیں بلکہ بی جے پی مرکز سے حکمرانی کرتی۔ پانچ سال صدر راج رہتا تو بی جے پی کا مقصد پورا ہوجاتا، درمیان میں چناؤ ہوتا تو ضروری نہیں کہ واضح نتیجہ برآمد ہو۔ تو کیا ایسی صورت میں اسرائیل کی طرح الیکشن در الیکشن کراتے جائیں۔ وہاں رواں سال دو مرتبہ انتخابات ہوچکے مگر پارلیمنٹ بدستور معلق ہے۔ اب تیسرے الیکشن کی تیاری ہے۔ وہاں کی انتخابی سیاست میں عرب اسرائیلی شہریوں کا لگ بھگ 20% دخل ہے۔ مگر دو بار بھی وہ فیصلہ کن نہیں ہوسکے۔
آئیے ! سکیولرازم کے بارے میں کچھ جانتے ہیں: لفظSecularism کی ابتداء براعظم یورپ کی تاریخ میں قرونِ وسطیٰ یا درمیانی دور میں 1250-1300ء سے ہوئی، یعنی لگ بھگ 750 سال سے یہ لاطینی اساس والا لفظ مستعمل ہے، جس کے معنی مذہبی یا روحانی امور سے لاتعلق رہنا ہے۔ میرے خیال میں لفظ، اصطلاح، اور زبان کی بھی منطقی ’مدت‘ ہوتی ہے جس کے بعد وہ بے معنی یا اصلی معنویت سے عاری یا ناپید ہوجاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شہنشاہیت۔ آپ بتائیں اب دنیا میں وہ بادشاہی اور شہنشاہیت کہاں ہے جو ہندوستان میں بمشکل 72 سال قبل تک تھی، جیسے حیدرآباد دکن میں نظام سلطنت۔ اب آپ کو کہیں کہیں جیسے برطانیہ، جاپان وغیرہ میں علامتی بادشاہت یا شہنشاہیت ملے گی، ورنہ عملاً پوری دنیا میں جمہوری طرز حکمرانی ہے۔ مختصر یہ کہ اب شہنشاہت کی اصطلاح لغت میں رہ گئی، اس کی روایتی شکل ختم ہوچکی ہے۔ سکیولرازم اور اس کے ساتھ لفظ سوشلسٹ Socialist (اشتراکیت کا حامی یا اشتراکیت پر عمل پیرا کوئی بھی فرد) دونوں الفاظ ہندوستان کے دستور کا ابتداء سے حصہ نہیں تھے بلکہ ’ایمرجنسی ‘ کے دوران 1976ء میں یہ الفاظ شامل کرتے ہوئے ہندوستان کو sovereign، socialist، secular، democratic republic قرار دیا گیا۔
میرا ماننا ہے کہ سکیولرازم حقیقی معنی میں ہندوستان میں نہ ایمرجنسی سے قبل تھا، نہ دستور کے دیباچہ میں اسے شامل کرنے کے بعد رہا، اور اب 2014ء کے بعد سے تو آپ کو یہ لفظ اپنے ذہن اور عملی زندگی سے یکسر نکال دینا چاہئے۔ 15 اگست 1947ء کو یا قبل کی پیدائش والے تمام بزرگ قارئین میری بات سے ضرور اتفاق کریں گے، ان شاء اللہ۔ سکیولرازم کا عام فہم مطلب یہی ہے کہ حکومت یا حکمرانی کسی مخصوص مذہب یا روحانی عقیدہ کے پیش نظر ہونا چاہئے، مذہبی وجوہات کی بناء شہریوں میں بھید بھاؤ نہیں ہونا چاہئے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر انڈیا 1976ء سے ہی حقیقی طور پر سکیولر بن جاتا تو تمام سرکاری دفاتر اور سرکاری کاموں میں ہندومت غالب نہیں رہتا۔ آپ تلنگانہ آر ٹی سی بس یا کسی بھی پبلک ٹرانسپورٹ کو دیکھیں، ڈرائیور کے پاس ہندو عقیدہ کے مطابق تصویریں اور مورتیاں ہوتی ہیں۔ کیا ڈرائیور کی پرائیویٹ بس ہے جو وہ اپنی مخصوص شناخت کی نمائش کررہا ہے؟ دستور کہاں اس کی اجازت دیتا ہے؟ (لیکن اکثر مسلمانوں نے جس طرح دستورِ حیات قرآن کو طاق پر رکھ دیا ہے، اسی طرح اصلی دستورِ ہند حفاظت سے دہلی میں رکھا ہوا ہے، سیاستداں اس پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھتے)۔ میں چیلنج کرتا ہوں آپ پورے ہندوستان میں آج کسی بھی سرکاری دفتر کو چلے جائیں۔ چپراسی کے بیٹھنے کی جگہ سے لے کر صدرجمہوریہ تک آپ کو سرکاری جگہوں پر ہندو مذہبی اشیاء ملیں گے۔ مطلب یہی ہوا نہ کہ دستور میں ملک کا کوئی مذہب نہیں، مگر عملی طور پر ہندوستان کا سرکاری مذہب ’Hinduism‘ ہے۔
آج مسلمان سکیولرازم کی بات کررہا ہوں۔ کانگریس، این سی پی اور بعض دوسروں کو سکیولرازم کی دہائی دے رہا ہے کہ وہ مہاراشٹرا میں ٹھاکرے حکومت کی تشکیل میں مدد کے ذریعے اپنے نظریاتی اصولوں کو قربان کررہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ کانگریس کو پوری طرح ہندوتوا اختیار کرلینا چاہئے، ورنہ بی جے پی اور اس کے سرکردہ قائدین بہت جلد ہٹلر کے دور کا اعادہ کردیں گے۔ یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ کانگریس حقیقی معنی میں کبھی بھی سکیولر نہیں رہی، یہ الگ الگ دَور کا فرق ہے۔ ماضی میں کوئی بڑا چیلنجر نہیں تھا، کانگریس نے جو بولا، جو سمجھایا… عوام نے ہاں کرلی۔ اب صرف امریکا کی طرز پر انڈیا میں دو ہی بڑی پارٹیاں ہوسکتی ہیں: بی جے پی اور کانگریس۔ باقی تمام چھوٹی بڑی پارٹیوں کو جلد یا بہ دیر نظریات کے اعتبار سے کسی ایک سے وابستہ ہونا پڑے گا۔ گزشتہ ایک سال میں بی جے پی کا ملک کی ریاستوں میں حکمرانی کا گراف تیزی سے گرا ہے۔ وہ 71 فیصد سے 40 فیصد تک آگیا، اور اس میں سے کئی سیاسی دھوکے سے حاصل کردہ اقتدار ہیں۔ مگر اب یہ زمانے کی حقیقت بن چکے ہیں۔ اگر آپ مودی اور شاہ کی بی جے پی کو ہرانا چاہتے ہیں تو ان کو وہی زبان میں جواب دینا پڑے گا جس کو وہ سمجھتے ہیں۔ آپ سکیولر، سیاسی اخلاق، دستوری پاسداری … یہ سب کریں گے تو یاد رکھئے پیس دیئے جاؤگے! سیاسی شطرنج پر عرصہ بعد بی جے پی کو بُری طرح مات ہوئی جب شرد پوار اور اجیت نے جو ’چال‘ چلی وہ نہ چلتے تو صدر راج اتنی جلدی کبھی ختم نہ ہونا تھا، چاہے سینا، این سی پی، کانگریس اپنا اتحاد بتاتے ہوئے نئی حکومت تشکیل دینے کا کتنا ہی دعویٰ کرلیتے۔ اب آپ 2019ء کے حالات دیکھیں۔ تقریباً 80 فیصد ہندو آبادی کو بی جے پی نے محض ہندوتوا کی دہائی دے کر اپنی گرفت میں لے رکھا ہے، اُن کو توڑنا ہو تو صرف ایک ہی پارٹی کانگریس کرسکتی ہے جس کیلئے اُس کو نرم گرم ہندوتوا یا ظاہری، ڈھونگی سکیولرازم تیاگ کر ’’کٹر ہندوتوا‘‘ اختیار کرنا پڑے گا۔ بے شک ! اسے ایسا کرنے دیجئے۔ تب کم از کم ملک میں اقتدار کی باری باری تبدیلی یقینی بنے گی۔ کوئی بھی ہٹلر نہیں بننے پائے گا۔
میں مسلم کمیونٹی کے بارے میں سطور سے اپنی یہ تحریر ختم کرنا چاہتا ہوں۔ بابری مسجد کا تالا کس نے کھلوایا، مسجد کس کی سازش سے شہید ہوئی، ایودھیا فیصلہ کیوں منصفانہ نہیں، مزید کتنے مسجدوں اور آثار قدیمہ جیسے تاج محل، قطب مینار، چارمینار نشانے پر ہیں؟ میں مانتا ہوں کہ ان سوالات کی کم یا زیادہ اپنی جگہ اہمیت ہے۔ ساتھ ہی میرا ایک سادہ سوال ہے کہ اگر پورے ہندوستان کا ہر مسلمان (میں بھی) ان سوالات کو دہراتا رہے، ان کیلئے راست یا بالواسطہ وہ قائدین جو مر کھپ کے کئی دہے گزر چکے، اگر اُن کو کوستا رہے، اگر ہندوستان کو بیگانہ وطن سمجھتا رہے… تو کیا این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس)، ووٹنگ کے حق سے محرومی، مسلمانوں کو دوسرے درجے کے شہری بنانا، یونیفارم سیول کوڈ، دینی مدرسوں کے خلاف کارروائی، اُردو کو مٹانے کی کوشش… اور کئی دیگر ممکنہ اقدامات کے خلاف دفاع کیلئے ہماری تیاریوں میں کچھ مدد ملنے والی ہے؟ مسلمانو! آپ اپنے ضمیر کو ٹٹول کر بس اتنا معلوم کرلیں کہ ماضی میں جینا چاہتے ہو، یا اپنے حال اور مستقبل کو بہتر بنانا مقصد ہے۔ ایودھیا فیصلہ کو فی الحال قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اس جھٹکے سے باہر نکلیں اور اپنی ترجیحات بدلیں، جن میں حال اور مستقبل پر توجہ مرکوز ہونا چاہئے۔ گھٹیا دنیاوی امور کے ماضی کو کریدنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں!
[email protected]