سکیولر نیتاجی سبھاش چندر بوس سے بی جے پی کی جھوٹی محبت

   

رام پنیانی
دارالحکومت نئی دہلی میں 8 ستمبر کو نیتاجی سبھاش چندر بوس کے مجسمہ کی نقاب کشائی انجام دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ اگر ہندوستان نیتاجی کے بتائی ہوئی راہ پر گامزن ہوتا تو بہت ترقی کرتا لیکن افسوس کہ انہیں فراموش کردیا گیا اور اب (مودی کے دور حکومت میں) ان کا ویژن واپس لایا جارہا ہے۔ نریندر مودی کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ان کی حکمرانی میں نیتاجی سبھاش چندر بوس کی پالیسیوں کی چھاپ دکھائی دے رہی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر معاشی ترقی سے متعلق نیتاجی کا ویژن کیا تھا؟ ہم اُسی سے شروع کرتے ہیں۔ وہ ایک سوشلسٹ تھے جو صرف اور صرف ملک کی خوشحالی کی بنیاد پر منصوبہ بندی میں ایقان رکھتے تھے۔ 1938ء میں انڈین نیشنل کانگریس کا صدر بننے کے بعد انہوں نے جو سب سے بڑے قدم اٹھائے، ان میں سے ایک اقتصادی پالیسیوں کی اہمیت کو اولین ترجیحات میں شامل کرنا تھا، انہوں نے پنڈت جواہر لعل نہرو کو ایک مکتوب لکھا جس میں ان پر زور دیا کہ وہ مجوزہ منصوبہ بندی کمیٹی کی قیادت یا سربراہی قبول کریں۔ انہوں نے پنڈت نہرو کے نام مکتوب میں کچھ یوں لکھا: ’’امید ہے کہ آپ قومی منصوبہ بندی کمیٹی کی صدارت قبول کریں گے‘‘۔ ان ہی خطوط پر آگے چل کر پنڈت جواہر لعل نہرو نے قومی منصوبہ بندی کمیشن قائم کیا جس نے ملک کی معاشی ترقی کو آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن 2017 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کی کامیابی اور مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی قومی منصوبہ بندی کمیشن کو ختم کرکے اس کی جگہ نیتی آیوگ قائم کیا اور اس کیلئے مختلف اہداف مقرر کئے گئے جہاں تک معاشی منصوبہ بندی کا تعلق ہے۔ یہ پنڈت نہرو ہی تھے جنہوں نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کے ویژن کو آگے بڑھایا۔ اس کے برعکس مودی نے اُس ویژن کو الٹ ہی دیا۔ سبھاش چندر بوس اور پنڈت نہرو نے ملک کی معاشی ترقی و خوشحالی کی تشکیل میں عوامی شعبہ کے اداروں کے کردار کو دیکھ لیا تھا جسے اب ختم کیا جارہا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ بوس اور کانگریس کی اعلیٰ قیادت کے درمیان انگریز مخالف جدوجہد کے بارے میں اختلافات تھے۔ دراصل سبھاش چندر بوس جرمنی۔ جاپان کے ساتھ ایک اتحاد کے خواہاں تھے۔ وہ اصل میں اس محاورہ میں یقین رکھتے تھے کہ دشمن کا دشمن دوست ہوتا ہے۔ جبکہ کانگریس قائدین کی اکثریت انگریز مخالف ایجی ٹیشن شروع کرنے کی خواہاں تھی۔ اس طرح سے ان کا جاپانی تائید و حمایت طلب کرنا ایک تباہ کن قدم تھا کیونکہ اگر جرمنی۔ جاپان دوسری جنگ عظیم کے فاتح ہوتے تو ہندوستان کیلئے جاپان کی غلامی ناگزیر ہوجاتی۔
نیتاجی کا ہندوستانی تکثیریت پر ایقان
جہاں تک ہندوستان کی ہم آہنگی کے ورثے کا تعلق ہے ، گاندھی جی نے ایک بڑے اور عظیم ہندو کی حیثیت سے تمام مذاہب کو ہندوستانی مذاہب کے طورپر دیکھا اور ان کے اخلاقی اقدار سے نہرو نے اپنے طریقہ گنگا جمنی تہذیب (ہم آہنگی پر مبنی تہذیب) کو برقرار رکھا اور اسے اپنی عظیم الشان ادبی تخلیق ’’ڈسکوری آف انڈیا‘‘ کا مرکزی خیال بنایا جو شیام بنیگل کی ’’بھارت ایک کھوج‘‘ میں بدل گئی اور سیرئیل لازمی طور پر دیکھنے کے قابل رہا۔ جہاں تک نیتاجی سبھاش چندر بوس کا سوال ہے، وہ ہندوستانی تہذیب و ثقافت میں تکثیریت کے بھی کٹر حامی تھے۔ بوس اپنی کتاب Free India and Her Problem (آزاد ہندوستان اور اس کے مسائل) میں لکھتے ہیں۔ محمڈنس (مسلمانوں) کی آمد کے ساتھ ہی آہستہ آہستہ ایک نئے کلیہ پر کام کیا گیا اور یہ کام بتدریج کیا گیا۔ اگرچہ ان لوگوں (محمڈنس) نے ہندوؤں کا مذہب قبول نہیں کیا لیکن ہندوستان کو اپنا گھر بنایا اور لوگوں کی مشترکہ سماجی زندگی میں شریک بننے بالفاظ دیگر مسلمانوں نے یہاں کے لوگوں کے خوشی و غم بانٹے اس میں شریک ہوئے۔ باہمی تعاون و اشتراک، نئے فنون اور ایک نئی تہذیب کا ارتقاء عمل میں آیا اور ساتھ ہی ہندوستانی محمڈنس (مسلمانوں) نے قومی آزادی کیلئے اپنا کام جاری رکھا چنانچہ اقلیتوں کے حقوق کو برقرار رکھنے کی خاطر انہوں نے ایک نئی ریاست کا تصور پیش کیا۔ جہاں افراد اور گروپوں کیلئے مذہبی اور تہذیبی و ثقافتی آزادی کی ضمانت دی جائے اور کوئی بھی ریاستی مذہبی اختیار نہیں کیا جائے گا جبکہ حکمراں ہندوتوا نظریہ اسلام اور عیسائیت کو غیرملکی یا بیرونی مذاہب کے طور پر دیکھتا ہے اور اس نظریہ کو مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف غلط فہمیوں اور نفرتوں کی شکل میں پروان چڑھاتا ہے۔ گاندھی، نہرو، سبھاش چندر بوس اور تحریک آزادی کے اکثر رہنماؤں کی تفہیم مختلف مذاہب کو بطور مذہب دیکھنے کے اطراف گھومتی ہے۔ قوم کیلئے خوش آئندہ اور طاقت کے نقطہ کے طور پر گھومتی ہے۔ اگر کوئی یہ جاننے کی کوشش کرے گا کہ آزاد ہند فوج میں کون کون شامل تھے تو اسے نہ صرف یہ معلوم ہوگا کہ رانی جھانسی ریجمنٹ کی سربراہ لکشمی سہگل تھی بلکہ یہ بھی معلوم ہوگا کہ شاہنواز خاں سہگل اور ڈھلون مختلف مذاہب سے تعلق رکھتے تھے۔ سبھاش چندر بوس ایک کٹر سکیولر تھے اور یہ سب ان کی شعوری منصوبہ بندی کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے اپنی فوج کو ان خطوط پر تشکیل دیا یعنی سکیولر خطوط پر اس کی تشکیل عمل میں لائی۔نہرو نے نیتاجی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج یا انڈین نیشنل آرمی (آئی این اے) کے جنگی قیدیوں کے مقدمات لڑنے کیلئے نہ صرف وکیل کا کورٹ زیب تن کیا بلکہ نیتاجی کی بیٹی کی جو بیرون ملک مقیم تھیں، ان کی باقاعدہ مدد کی پیشکش بھی کی۔ اس مدد کو بھی علامت احترام کے طور پر یاد کیا جانا چاہئے جو انہوں نے اپنے عظیم دوست اور کامریڈ نیتاجی سبھاش چندر بوس کی خاطر کی تھی۔ بہرحال نہرو نے ہمیشہ نیتاجی کا احترام کیا اور نیتاجی نے بھی نہرو کی قدر کی۔