مقبوضہ بیت المقدس (سیاست ڈاٹ کام) اسرائیل میں ایک سفید فام پولیس افسر کے ہاتھوں ایتھوپیا نڑاد سیاہ فام اسرئیلی کی ہلاکت کے بعد صہیونی ریاست میں عوامی سطح پر بھونچال آگیا۔ واقعے کی تفصیل سے متعلق اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ چند روز قبل ایک پولیس افسر نے بیت المقدس میں کھیل کے میدان میں 2 افراد کو لڑتے دیکھا۔ وہ پولیس افسر اس وقت ڈیوٹی پر نہیں تھا، لیکن اس نے فریقین میں بچاؤ کی کوشش کی۔ پولیس افسر نے اپنی شناخت ظاہر کی تو ان افراد نے افسر پر پتھر پھینکنا شروع کر دیے، جس پر افسر نے گولی چلا دی اور نتیجتاً ایک 19 برس کا سیاہ فام نوجوان ہلاک ہو گیا۔ تاہم عینی شاہدین کے بیانات پولیس کے موقف سے مختلف ہیں۔ اس واقعے نے اسرائیل کے سیاہ فام یہودیوں کو مشتعل کر دیا اور ملک بھر میں احتجاج شروع ہوگیا۔ کئی روز ہونے والے احتجاج کے دوران مظاہرین نے عوامی گاڑیوں، ایمبولینس گاڑیوں اور دیگر املاک کو آگ لگا دی، جب کہ سڑکوں پر ٹائر جلائے اور سیکورٹی اہل کاروں پر پتھراؤں کیا۔ اس تصادم میں سیکڑوں اہل کار زخمی ہوئے۔ نسل پرستی کے خلاف ان مظاہروں میں سیاہ فام مظاہرین نے صہیونی ریاست کے خلاف احتجاج ریکارڈ کرانے کے لیے ’’آزاد فلسطین‘‘ اور ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعرے بھی لگائے۔ فلسطینی خبررساں ادارے سما کے مطابق سیاہ فام مظاہرین نے سڑکیں بند کرکے ریلیاں نکالیں
اور اس دوران عبرانی، عربی اور انگلش میں ان نعروں سمیت دیگر کئی ایسے نعرے لگاتے رہے، جو فلسطینی اسرائیلی فوج سے جھڑپوں کے دوران لگاتے ہیں۔
اسرائیلی نوجوان کی ہلاکت کے اس واقعے کی تحقیقات کے دوران صہیونی حکام نے قاتل پولیس افسر کو حراست میں لیا، تاہم تھوڑی ہی دیر بعد اسے چھوڑ کر گھر میں نظر بند کر دیا گیا۔ یہ اقدامات ان فسادات کو روکنے کے لیے ناکافی تھے، جن میں دونوں طرف سے سیکڑوں افراد زخمی ہوچکے ہیں اور 136 مظاہرین کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔ اسرائیلی حکام کی جانب سے قاتل کو تحفظ فراہم کرنے پر مظاہرین میں اشتعال پھیلنے کا امکان ہے اور اس احتجاج کے مزید جاری رہنے کی توقع ظاہر کی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ اسرائیل کی ایتھوپیائی برادری کے لیے ایسی نظیریں عام ہیں، جن میں انہیں امتیازی سلوک اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ہو۔ ایتھوپیا نڑاد اسرائیلی شہری برسوں سے شکایت کر رہے ہیں کہ ان کے ساتھ اسرائیل میں دوسرے درجے کے شہریوں کا سلوک ہوتا ہے۔ انہیں احساس دلایا جاتا ہے کہ وہ سیاہ فام یہودی ہیں، جو ایک سفید فام ملک میں رہتے ہیں۔ انہیں ناجائز طور پر پولیس نشانہ بناتی ہے اور وہ ایک منظم امتیاز کا شکار ہیں۔ اسرائیلی ایتھوپیائی برادری 1980ء اور 1990ء کی دہائیوں میں بڑے پیمانے پر ہجرت کر کے اسرائیل پہنچی تھی۔
