سیلاب سے متاثرہ علاقوںمیں سینکڑوں خاندان ابھی بھی امداد سے محروم

   

این جی اوز کو تقسیم سے روکنے کی کوشش، مقامی جماعت کے حامیوں میں امداد، حقیقی متاثرین سے کوئی ہمدردی نہیں

حیدرآباد۔ شہر کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں حکومت اور غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے منظم انداز میں ریلیف کے کاموں کی ضرورت ہے۔ حکومت نے متاثرہ خاندانوں کیلئے فوری طور پر 10 ہزار روپئے کی امداد کا اعلان کیا لیکن آج بھی تقریباً 40 تا 50 فیصد متاثرہ خاندان امدادی رقم سے محروم ہیں۔ چندرائن گٹہ، یاقوت پورہ، نامپلی، بہادر پورہ اور کاروان اسمبلی حلقوں میں بھاری بارش اور سیلاب کے متاثرہ خاندانوں کو ابھی بھی حکومت کی امداد کا انتظار ہے۔ بلدی انتخابات کے پیش نظر حکومت نے مقامی عوامی نمائندوں کے ذریعہ تقسیم کا فیصلہ کیا لیکن مقامی جماعت کے نمائندے امداد کی تقسیم کے سلسلہ میں غیر جانبداری کے بجائے اپنی پارٹی کے حامیوں میں رقم تقسیم کرتے دیکھے گئے۔ کئی علاقوں کے متاثرین نے شکایت کی کہ حقیقی متاثرین کے بجائے مقامی جماعت سے تعلق رکھنے والے ایسے افراد میں رقم تقسیم کی گئی جن کا کوئی نقصان نہیں ہوا جبکہ حقیقی متاثرین اپنے مکانات میں تمام ضروری سازوسامان سے محروم ہوچکے ہیں۔ حکومت کی امداد کے سلسلہ میں جانبداری کا یہ عالم ہے تو دوسری طرف رضاکارانہ تنظیموں اور جماعتوں کو متاثرہ علاقوں میں امداد کی تقسیم سے روکا جارہا ہے۔ صرف اُن اداروں کو امداد کی تقسیم کی اجازت ہے جو مقامی جماعت کی تائید کرتے ہیں۔ کانگریس پارٹی کے علاوہ بائیں بازو کی جماعتوں اور کئی رضاکارانہ تنظیموں کو امداد کی تقسیم سے روک دیا گیا۔ انہیں متاثرہ علاقوں کے دورہ کی تک اجازت نہیں ہے۔ مقامی جماعت کی ٹولیاں متاثرہ علاقوں میں سرگرم ہیں اور وہ اپنے مخالفین کو امداد کی تقسیم سے روک رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نقصان متاثرہ خاندانوں کا ہورہا ہے۔ چندرائن گٹہ اور یاقوت پورہ کے کئی خاندانوں کی شکایات سوشیل میڈیا پر وائرل ہوچکی ہیں جس میں انہوں نے کہا کہ مقامی جماعت کے نمائندے صرف اپنے لوگوں میں امداد تقسیم کررہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ بعض علاقوں میں مقامی جماعت کے قائدین نے امداد تقسیم کرنے والوں سے سامان اور اشیاء کو تقسیم کرنے کے نام پر حاصل کرلیا اور انہیں کسی مقام پر محفوظ کردیا گیا۔ اسی طرح اجناس پر مشتمل کٹس کو صرف مقامی جماعت کے حامیوں کے مکانات پر پہنچایا جارہا ہے۔ سینکڑوں ایسے متاثرین ہیں جو ابھی تک امداد سے محروم ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے سروے کے بعد پتہ چلا ہے کہ حکومت نے رقمی امداد کے سلسلہ میں مقامی جماعت پر انحصار کرلیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کیلئے منظم منصوبہ بندی کی جائے تاکہ ہر متاثرہ خاندان تک امداد پہنچ سکے۔ زیادہ تر خاندان ایسے ہیں جنہیں گھر دوبارہ جمانے کیلئے ازسر نو سازوسامان خریدنا پڑے گا۔ گھر کی تمام قیمتی اشیاء تباہ ہوچکی ہیں حتیٰ کہ پکوان کیلئے برتن دستیاب نہیں۔ ایسے میں کئی غیر مستحق اور فرضی متاثرین میدان میں آچکے ہیں اور وہ حقیقی متاثرین کی امداد ہڑپ کررہے ہیں۔ امدادی کاموں میں مصروف رضاکارانہ تنظیموں کو چاہیئے کہ وہ ضروری سامان کے کٹس سڑکوں پر فرضی متاثرین کو حوالے کرنے کے بجائے متاثرہ مکانات تک پہنچ کر حوالے کریں۔ کئی تنظیموں نے مکانات کی صفائی کا کام شروع کیا ہے لیکن افسوس کہ گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن نے متاثرہ علاقوں میں ابھی تک صفائی کے کاموں کا آغاز نہیں کیا جس کے نتیجہ میں وبائی امراض پھیلنے کا خطرہ بڑھنے لگا ہے۔