کمپنیاں تجارتی فروغ کیلئے، سیاسی جماعتیں رکنیت سازی مہم کیلئے استعمال کررہی ہیں
سروے کے علاوہ ریالیٹی شوزس کے فاتحین کا انتخاب کرنے کیلئے اس سہولت سے استفادہ
حیدرآباد۔/26 ستمبر، ( سیاست نیوز) ہمارے ملک میں ’ مس کال ‘ کلچر نیا نہیں ہے، جب ریچارج کی قیمتیں زیادہ ہوتی تھیں تب ٹیلی کام آپریٹرس اِن کمنگ اور آؤٹ گوئنگ چارجس وصول کرتی تھیں جس کی وجہ سے چند لوگ مس کال دے کر بات کیا کرتے تھے۔ گذرتے وقت کے ساتھ ساتھ ٹیلی فون کمپنیوں کے درمیان بھی مسابقت بڑھ گئی اور صارفین کیلئے کم ریچارجس کے ساتھ لا محدود کالس دستیاب ہوگئیں لیکن حالیہ دنوں میں ملٹی نیشنل کمپنیاں مسڈ کال کے ساتھ کاروبار کررہی ہیں اور صارفین کی رائے حاصل کررہی ہیں۔ ریالیٹی شوزس کے فاتحین کے انتخاب اور سیاسی جماعتیں اپنی پارٹی کی رکنیت بھی مس کال کے ذریعہ کررہی ہیں۔ یہی نہیں کسی اچھے کام کی حمایت یا ناانصافی کی مذمت کرنے مس کال ایک بہترین طریقہ میں تبدل ہوگیا ہے۔ عام لوگ مس کال کو مواصلات کی شکل کے طور پر استعمال کررہے ہیں جبکہ چند کمپنیاں اس کو مارکیٹنگ میں تبدیل کررہی ہیں۔ اب کلاؤڈ ٹکنالوجی کی آمد کے بعد مس کالس کا استعمال بہت سی کمپنیوں میں مقبول ہوگیا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ریستوران میں ٹیبل بک کروانے سے لے کر کئی کارپوریٹ ہاسپٹلس میں ڈاکٹرس کا وقت لینے تک مس کال کی خدمات سے استفادہ کیا جارہا ہے۔ ایک سوشیل میڈیا کمپنی میں کام کرنے والے نمائندہ کا کہنا ہے کہ ملک میں مس کال کا کاروبار تقریباً 900 کروڑ روپئے تک پہنچ گیا ہے۔ یہاں تک کہ ٹکنالوجی کے اس دور میں ZIP Dial جیسی کمپنیاں ان مس کال کے ساتھ کاروبار کررہی ہیں۔ ایک معروف ٹیلی کام کمپنی کے مارکیٹنگ ہیڈ نے کہا کہ سچ پوچھیں تو ہر مس کال ایک کاروباری موقع ہے۔ انہوں نے کہا کہ آمدنی کے لحاظ سے مس کال کی وجہ سے کچھ نقصان ہوتا ہے لیکن اس سے چند کاروباری اداروں کو نئے صارفین تک پہنچنے، صارفین کا ڈیٹا حاصل کرنے اور ساتھ ہی ان کی مصنوعات کے بارے میں رائے جاننے میں مدد ملتی ہے۔ سائبر سیکوریٹی کے ماہر علی کہتے ہیں کہ چند ایپس فلیش مسیجس اور کالس کا استعمال کررہی ہیں۔ مس کال کی وجہ سے نیٹ ورک پر غیر ضروری بوجھ اور مسائل کے امکانات ہیں۔2