حکومت کی جانب سے توثیق یا تردید سے گریز ۔ انہدام کے دوران راستے بند کرنے سے چہ میگوئیاں
حیدرآباد۔سیکریٹریٹ کے انہدام اور اس کارروائی کو راز میں رکھنے کی کوششوں کے سبب یہ کہا جا رہاہے کہ حکومت کی جانب سے سیکریٹریٹ میں جی بلاک کے نیچے خزانہ کی تلاش کیلئے یہ انہدامی کاروائی کی جارہی ہے لیکن حکومت کی ان قیاس آرائیوں کو توثیق یا تردید کرنے سے گریز کر رہی ہے ۔ کہا جار ہاہے کہ حکومت نئے سیکریٹریٹ کی تعمیر کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے احتیاطی اقدامات کر رہی ہے ۔ شہر میں کے مرکزی علاقہ میں موجود سیکریٹریٹ عمارت کے انہدام کے دوران کھدوائی کیلئے آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا یا این ایم ڈی سی کی مدد حاصل کی جاتی ہے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت سیکریٹریٹ کے نیچے امکانی خزانہ کی تلاش کی کوشش کر رہی ہے لیکن حکومت سے ایسا کچھ کیا نہیں جا رہا ہے لیکن سیکریٹریٹ کے انہدام کیلئے اطراف 1کیلو میٹر تک راستوں کو مسدود کرنے کے علاوہ وہاں موجود سی سی کیمروں کو نکالنے کے فیصلہ سے بھی شبہات پیدا ہونے لگے ہیں
اور کہا جار ہاہے کہ اگر حکومت کی نیت میں کھوٹ نہیں ہے تو پھر میڈیا کو انہدام کی جگہ جانے سے کیوں روکا جا رہاہے اور کیوں انہدامی کارروائی کی تصویر کشی کی اجازت نہیں دی جار ہی ہے ۔ حکومت یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ اپوزیشن سیکریٹریٹ کی تعمیر میں رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کررہی ہے اور اسی کے نتیجہ میں اب خزانہ کی افواہ اڑائی جا رہی ہے لیکن ذرائع کا کہناہے کہ چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ نے اپنے با اعتماد اور قریبی رفقاء کے علاوہ بعض اعلی عہدیداروں سے بھی اس سلسلہ میں گفتگو کی ہے ۔ سیکریٹریٹ کے روبرو واقع ودیارائنا اسکول میں کھدوائی کے دوران سرنگ کے انکشاف کے بعد اے ایس آئی اور دیگر متعلقہ محکمہ جات کی نگرانی میں یہ کھدوائی عمل میں لائی گئی تھی لیکن اس دوران کچھ دستیاب نہیں ہوا مگر اب کہا جار ہاہے کہ حکومت اس سرنگ اور نظام دور حکومت کے ٹیکسال کے خفیہ راستوں میں موجود خزانوں کے حصول کی کوشش کررہی ہے اسی لئے سیکریٹریٹ کی کھدوائی جن سی سی کیمروں سے ریکارڈ کی جاسکتی ہے ان تمام کو نکال دیا گیا ہے اور اطراف کی سڑکوں کو بند کرکے شہریوں کی حفاظت کا دعوی کیا جارہا ہے لیکن جمہوریت میں میڈیا کو آزادی سلب کرکے انہیں بھی انہدامی کارروائی سے دور رکھا جا رہاہے اور قریب جانے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے ۔حکومت کے ان اقدامات اور کاروائیوں سے خزانہ کی تلاش کی قیاس آرائیوں کی توثیق ہونے لگی ہے لیکن اس بات کا کسی بھی سرکاری گوشہ سے اعتراف نہیں کیا جار ہاہے ۔
