سیکولرازم: مغربی یا جدید

   

رام پنیانی
ہندوستان کی جدوجہد آزادی کثرت میں وحدت کی ایک بہترین مثال تھی جس میں بلالحاظ مذہب و ملت ‘ رنگ و نسل ‘ ذات پات تمام لوگوں نے حصہ لیا۔اگر ہم جدوجہد آزادی کا جائزہ لیتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ سب نے ملکر سیکولر اور جمہوری اقدار کے تئیں جان توڑ کوشش کی یعنی ملک کے سیکولر اور جمہوری اقدار و کردار کو مضبوط و مستحکم بنانے کو اولین ترجیح و اہمیت دی۔ سیکولر اور جمہوری اقدار کے تئیں ہماری کوششوں کی عکاسی ہمارے وطن عزیز کے آئین یا دستور کی تمہید میں بھی بہتر انداز میں ہوئی جس کی زیادہ تر دفعات میں آزادی، مساوات، اخوت اور سماجی انصاف کی بات کی گئی ہے۔ ہمارے ملک کے دستور میں بلالحاظ مذہب و ملت‘ رنگ ونسل اور ذات پات کے شہریوں کی آزادی، مساوات، بھائی چارے اور سماجی انصاف کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی۔ یہاں مساوات کا مطلب یہ ہے کہ ہر لحاظ سے تمام شہری مساوی ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب یا ذات پات سے ہو۔ یعنی بلالحاظ مذہب و ملت‘ ذات پات اور صنف کے تمام کو دستور نے مساوی قرار دیا ہے۔
ہمارے دستور یا آئین کی بیشتر شقیں سیکولر اقدار پر مبنی ہیں ۔ ہاں ! آپ کو یہ بھی بتادیں کہ آئین کی تمہید میں لفظ سیکولر نہیں تھا لیکن تمام دفعات اسے ہر حال میں اور ہر شکل میں سیکولر بناتی ہیں اور اس کا مسودہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر نے تیار کیا جس میں مختلف سیاسی گروپوں نے بھی حصہ لیا اور پھر ہمارے آئین پر 26 جنوری 1950 میں عمل آوری کی گئی یا اس کا نفاذ عمل میں آیا۔ خود کو قوم پرست قرار دینے والے ہندو عناصر اس بنیاد پر دستور ہند کی مخالفت میں کھڑے ہوئے کہ ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا تیار کردہ دستور ان کی مقدس مذہبی کتابوں میں موجود قدیم روایات و اقدار، ذات پات اور صنف پر مبنی درجہ بندی کی عکاسی نہیں کرتا۔
آر ایس ایس کے ترجمان ’’ آرگنائزر ‘‘ نے 1949 کے اپنے شمارہ میں لکھا ’’ لیکن ہمارے آئین یا دستور میں قدیم ہندوستان کی منفرد آئینی ترقی کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ منوسمرتی کے قوانین LYCORGUS OF SPARTA یا SOLON OF PERSIA سے بہت پہلے لکھے جاچکے تھے( جہاں تک سولون آف پرسیا کا سوال ہے سولون ایک یونانی دانشور و شاعر تھا جس نے نظامِ حکومت اور عوام کی بہبود کیلئے اُصول و ضوابط ( آئین تحریر کیا تھا ) جسے Code of Laws بھی کہا جاتا ہے بلکہ قدیم یونانی جمہوری اسپارٹا کے بارے میں آپ کو بتاتے ہیں کہ اس کیلئے ایک ممتاز قانون داں LYCORGUS یا لاگس نے قوانین و ضوابط بنائے تھے ) اور منوسمرتی میں جیسا کہ دنیا کی تعریف بیان کی گئی ہے اور اس کے قوانین کی فرمانبرداری اور ان کے ساتھ مطابقت پوری کرنے کیلئے کیا گیا تاہم ہمارے دستوری پنڈتوں کیلئے اس کا کوئی مطلب کوئی اہمیت و افادیت نہیں ہے۔
جہاں تک ہندوقوم پرستوں کا سوال ہے وہ ہمارے سیکولر اور جمہوری جمہوریہ یا ملک کو ہندو راشٹرا کہتے رہے ہیں اور یہ آر ایس ایس شاکھاؤں میں دی جانے والی تربیت کا اہم حصہ تھا اور شائد آج بھی ہے اس کے برعکس حکمراں اسٹابلیشمنٹ مذہبی اقلیتوں کیلئے سیکولر پالیسیوں اور مثبت اقدام کو آگے بڑھانے کی کوششیں کرتی رہی یعنی حکومتوں اور حکومتی اداروں نے مذہبی اقلیتوں کیلئے سیکولر پالیسیوں اور مثبت اقدامات کو آگے بڑھانے اور ان پر عمل آوری کو ترجیح دی۔ ( یہ اور بات ہے کہ گذشتہ دس برسوں کے دوران اس عمل کو ایک منصوبہ بند سازش کے ذریعہ بہت زیادہ نقصان پہنچایا گیا ) شاہ بانو قصہ کے بعد دائیں بازو کی طاقت اور اس کے اثر و رسوخ میں بے تحاشہ اضافہ ہوا اور اس نے سیکولر جماعتوں و طاقتوں کو فرضی سیکولر کہنا شروع کیا جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دائیں بازو کے یہ شدت پسند باالفاظ دیگر انتہا پسند سیکولر Secular طاقتوں؍ تنظیموں اور جماعتوں کے خلافSICULAR جیسے توہین آمیز الفاظ کا استعمال کرتے ہیں۔ جیسے ہی ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی قیادت میں دستور ہند کا مسودہ تیار ہوا اور 26 جنوری 1950 کو اس کا نفاذ عمل میں آیا اس کے فوری بعد دستور ہند کی مخالفت میں بے شمار آوازیں اُٹھیں۔ بی جے پی نے واجپائی کی زیر قیادت اپنی حکومت کے دوران دستور ہند کا ازسرنو جائزہ لینے وینکٹ چلیا کمیشن قائم کیا، اس کمیشن نے اپنی رپورٹ بھی پیش کی لیکن عوامی احتجاج کے پیش نظر اس رپورٹ کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ سدرشن نے آر ایس ایس سرسنچالک بننے کے بعد کہا کہ ہندوستان کادستور مغربی اقدار پر مبنی اور ان کی بنیاد پر ہے اور اسے ایسے دستور سے تبدیل کردینا چاہیئے جو ہندوستان کی قدیم مقدس کتابوں پر مبنی ہو۔ چنانچہ اس کے بعد سے ہم سب نے دیکھا کہ دستور کو تبدیل کرنے کا مطالبہ بی جے پی کے ہر لیڈر کیلئے شدت اور سیاسی ترقی کا باعث بن گیا۔ بی جے پی کے کئی لیڈروں نے وقفہ وقفہ سے دستور تبدیل کرنے کا مطالبہ شروع کردیا۔ کرناٹک سے تعلق رکھنے والے بی جے پی لیڈر اننت کمار ہیگڈے نے برسرعام یہ کہنا شروع کیا کہ دستور ہند کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ حال ہی میں اختتام کوپہنچے لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی نے بڑے زور و شور سے اعلان کیا کہ وہ اب کی بار 400 پار کرے گی یعنی 400 سے زائد نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی اور دلچسپی کی بات یہ ہے کہ بی جے پی والوں نے 400 نشستوں پر امکانی کامیابی کو دستور تبدیل کرنے سے جوڑدیا لیکن سارے ہندوستان نے دیکھا کہ دستور تبدیل کرنے کا ارادہ رکھنے والی بی جے پی کو400 نشستیں حاصل ہونا تو دور وہ اقتدار سے محروم ہوتے ہوتے رہ گئی۔ دستور بدلنے سے متعلق بی جے پی قائدین کی حماقت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے انڈیا اتحاد کے قائدین نے انتخابی مہم کے دوران اپنے ہاتھوں میں دستور ہند کو تھامے عوام کو بتایا کہ ان کا اولین مقصد دستور ہند کو بچانا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بی جے پی اپنے بَل بوتے پر سادہ اکثریت بھی حاصل نہ کرپائی اسے چندرا بابو نائیڈو کی تلگودیشم اور نتیش کمار کی جے ڈی یو سے مدد لینی پڑی اور آج بی جے پی ؍ نریندر مودی حکومت اِن دو بیساکھیوں پر کھڑی ہے۔
بی جے پی کے اس دستور تبدیل کرنے سے متعلق عزائم کے پس منظر میں ٹاملناڈو کے گورنر آر این روی کا ایک بیان منظرِ عام پر آیا جس میں انہوں نے کہا کہ سیکولرازم ہندوستان کا تصور نہیں ہے بلکہ یہ یوروپی نظریہ و تصور ہے اسے ملک میں رہنے دیجئے انہیں اس پر خوش ہونے دیجئے لیکن یہ سوچیں کہ ہندوستان دھرما یا مذہب سے کتنا دور رہ سکتا ہے؟۔ گورنر ٹاملناڈو نے یہ ریمارکس کنیا کماری کے تھرووتار میں واقع ہندو دھرما ودیا پیتھم کی تقریب تقسیم اسناد سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے صرف اسی پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ نہرو۔ پٹیل اور اندرا گاندھی کے درمیان فرضی اور جھوٹا فرق پیدا کرنے کی کوشش بھی کی۔ واضح رہے کہ منوسمرتی میں ذات پات کی درجہ بندی کی گئی ہے۔ اسی طرح ہر مذہب میں اخلاقی تبلیغ کا ایک پہلو ہوتا ہے جیسے اسلام میں دین اور عیسائیت میں اخلاقیات چنانچہ گورنر ٹاملناڈو کے مطابق سیکولرازم دھرما کے خلاف ہے یعنی سیکولرازم دھرما کی مخالفت کرتا ہے، اس کے متضاد ہے۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو وہ صحیح ہے کیونکہ سیکولرازم بلا لحاظ مذہب وملت، رنگ و نسل، صنف و ذات پات سب کے ساتھ مساویانہ سلوک کی وکالت کرتا ہے اور ہندوستانی معاملہ میں دھرما عدم مساوات کو برقرار رکھتا ہے۔ ایسے میں ایسا لگتا ہے کہ گورنر نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ اگرچہ دستور کی تمہید میں لفظ سیکولر نہیں ہے لیکن سارے کا سارا دستور تکثریت، تنوع اور تمام مذاہب کو مساوات یا ان سے مساویانہ سلوک پر مبنی ہے۔
یہ کہنا کہ دستور مغربی اقدار پر مبنی ہے اس کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ سیکولرازم کا تصور کہاں سے شروع ہوا۔ یقینا اس کا آغاز مغڑب میں صنعتی انقلاب کے ساتھ جمہوریت کے عناصر اور تکثریت کی قبولیت کے ہمراہ ہوا ہے۔ ایک طرح سے یہ ایک جدید تصور ہے جہاں صنعت کاری، صنعتی طبقہ، محنت کشوں اور خواتین کے عروج نے بادشاہوں اور مذہبی رہنماؤں ( پادریوں ) کے اتحاد کو چیلنج کیا ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ٹاملناڈو کے گورنر نے سیکولرازم کو چرچ کی طاقت و اختیارات اور بادشاہ کے درمیان جدوجہد تک محدود کیا جبکہ ہندو اخلاقیات میں راجہ اور راج گرو اور اسلام میں ہم نواب سے شاہی امام دیکھتے ہیں۔ ایک بات ضرور ہے کہ جاگیردارانہ و زمیندارانہ طبقہ نے مسلم لیگ، ہندو مہا سبھا اور آر ایس ایس کی شکل میں اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش کی اور مذہب کا لبادہ اوڑھ کر اپنی برتری دکھانے پر ساری توجہ مرکوز کردی۔ ہندوستان میں فی الوقت ہندوازم کو ایک مذہب کے طور پر نہیں بلکہ دھرما کے طور پر پیش کیا جارہاہے اور عوام میں اُلجھن پیدا کرنے ، اسے مذہب کے محافظ کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جبکہ سماجی و مذہبی درجہ بندی کو برقرار رکھنا اسے فروغ دینا ہی ان طاقتوں کا مقصد ہے۔