سیکولر پارٹیاں مسلمانوں کے مسائل نہیں بلکہ اُن کے ووٹوں کیلئے فکرمند

   

یوگیندر یادو
ریپبلکن پارٹی سیاہ فام رائے دہندوں کی کوئی پرواہ نہیں کرتی کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ یہ سیاہ فام لوگ اسے ووٹ نہیں دیں گے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کو بھی ان کی پرواہ نہیں ہے کیونکہ سیاہ فام باشندوں کو اسے ووٹ دینا ہی ہوگا۔ امریکی سیاست سے متعلق یہ طنز موجودہ ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار کا کافی حد تک خلاصہ کرتا ہے۔ باالفاظ دیگر امریکہ میں جو حالت زار سیاہ فام باشندوں کی ہے ہندوستان میں مسلمانوں کی بھی ویسی ہی حالت ہے جبکہ ہردوسرا سماجی گروہ بجلی، سڑک، پانی یا پڑھائی، دوائی، کمائی اور آپ کے پاس کیا ہے اس پر ووٹ کے استعمال کا انتخاب کرسکتا ہے۔ یعنی مذکورہ مسائل کو لے کر ان کے حل کی خاطر ہر دوسرا گروہ ووٹ کرسکتا ہے ( حق رائے دہی کا استعمال کرسکتا ہے )۔ اس کے برعکس جب مسلمان اپنی بقاء کو یقینی بنانے، ہجومی تشدد ،بلڈوزوروں او رفسادات سے بچنے کیلئے حق رائے دہی کا استعمال کرتا ہے تو اس کی مذمت کی جاتی ہے اور اس پر طرفہ تماشہ یہ کہ جس پارٹی کو وہ ووٹ نہیں دے سکے یا نہیں دیتے وہ پارٹی اُن کے ساتھ دشمنی کا رویہ اپنا تی ہے اور جس پارٹی کو مسلمان ووٹ دے سکتے ہیں یا دیتے ہیں وہ پارٹی ان کے ساتھ اگر توہین آمیز سلوک نہیں بھی کرتی ہے تو بے حِسی کا سلوک ضرور کرتی ہے۔یہ یرغمال جیسی صورتحال ان کی اپنی پیدا کردہ نہیں ہے۔ مسلم دشمنی اور مسلم دشمن بیانات و تقاریر پر سوار ہوکر بی جے پی کا عروج ملک کی سب سے بڑی مذہبی اقلیت کو ایک کونے میں ڈھکیل سکتا ہے ساتھ ہی یہ بات بھی یاد رکھنا چاہیئے کہ مسلم سیاسی قیادت اور سیکولر سیاسی جماعتوں کی سیاست نے مسلمانوں کو اس حالت تک پہنچانے میں کوئی معمولی کردار ادا نہیں کیا بلکہ غیر معمولی کردار ادا کیا ہے۔
بہر حال مسلمانوں کو غیر محفوظ اور کمزور رکھنے کی سیاست کا مقصد اس اقلیت کے ووٹوں کا حصول رہا ہے اور یہ رجحان بی جے پی کے عروج کے ساتھ شروع نہیں ہوا بلکہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے عروج سے پہلے سے ہی سیکولر جماعتوں نے صرف مسلمانوں کی تائید و حمایت اور ان کے ووٹوں کی پرواہ کی، مسلمانوں اور ان کو درپیش مسائل کی پرواہ نہیں کی اور یہ خود کو ایک فکری جال میں ظاہر کرتا ہے۔ مسلمانوں کے مسائل پر اکثر سیکولر کیمپ کے ردعمل، اس فرقہ پرستانہ ہندو اکثریتی سیاست کی آئینہ دار اور اس کی تصویر سے زیادہ نہیں ہوتے جس کی وہ مخالفت کرتی ہے۔ آر ایس ایس اور بی جے پی اپنا جو ایجنڈہ طئے کرتے ہیں اور ہم صرف اس ایجنڈہ کو اور وہ جو کچھ کہتے ہیں اسے اُلٹ دیتے ہیں۔ بی جے پی کے ٹرالس مسلمانوں کو ویلن کے طور پر پیش کرنے سے گریز نہیں کرتے ، وہ معاشرہ میں مسلمانوں کی شبیہہ متاثر کرکے انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتی اور ہم مسلمانوں کو متاثرین کے یکساں گروہ کے طور پر پیش کرتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی اور سیکولر جماعتیں دونوں مسلمانوں کی شبیہہ ایک متحدہ ساسی بلاک کے طور پر شیئر کرتے ہیں۔
جہاں تک بی جے پی کا سوال ہے اس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے بلکہ ہر کوئی یہی کہتا ہے کہ وہ ہر ہندو ووٹر یا رائے دہندے کو اس کی مذہبی شناخت تک محدود کردیتی ہے جبکہ آر ایس ایس ۔ بی جے پی اس بات پر زور دیتے ہیں اور اس بات کو پرزور انداز میں پیش کرتے ہیں کہ سیکولرازم کچھ اور نہیں بلکہ موافق مسلم موقف ہے اور سیکولر جماعتیں بھی مسلمانوں کے ساتھ وہی کچھ کررہی ہیں جو بی جے پی ، آر ایس ایس‘ ہندوؤں کے ساتھ کرتی ہیں۔( اگر دیکھا جائے تو بی جے پی صرف اقتدار کی برقراری اور اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے ہندوؤں کے مفادات کے تحفظ کی بات کرتی ہے ) جیسا کہ ہم نے سطورِ بالا میں لکھا کہ آر ایس ایس ، بی جے پی اس بات پر اصرار کرتی ہیں کہ سیکولرازم مسلم نوازی کے سواء کچھ نہیں۔
ہم اکثر ایک مسلم اور سکیولر نقطہ نظر کے درمیان فرق کرنے میں ناکام ہوکر شکوک و شبہات کی تصدیق کرتے ہیں۔ آج کے ہندوستان میں اگر دیکھا جائے تو بی جے پی۔ آر ایس ایس اپنا ایک مخصوص ایجنڈہ رکھتے ہیں اور اس ایجنڈہ میں ان کا جو ہدف ہے وہ بلاشبہ مسلمان ہیں۔ دوسری طرف سکیولر جماعتوں کے ایجنڈہ میں مسلمانوں کے تئیں صرف زبانی ہمدردی ہے۔ اس کے سوا کچھ نہیں( مثال کے طور پر اب حال یہ ہوگیا ہے کہ کوئی بھی سکیولر پارٹی کا بڑے سے بڑا لیڈر دلتوں و قبائلیوں اور دوسری ذاتوں یا مذاہب کے ماننے والوں کا نام لیتا ہے لیکن مسلمانوں کے ساتھ روا رکھنے جانے والے معاندانہ سلوک کی مذمت کے دوران یہ کہنے سے شرماتا ہے کہ آج ملک میں مسلمانوں کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا جارہا ہے ان کے ساتھ تعصب جانبداری اور نا انصافی برتی جارہی ہے)۔ اب مسلمانوں کے پاس تین امکانات ہیں ایک تو اپنی پسماندگی کو جو Logic یا منطق ہے اس کے سامنے ناراضگی کے ساتھ سرتسلیم خم کرنا ہے۔ حکومت کے ساتھ شرمناک ملی بھگت یا ناراضگی کا شکار ہونا جو ان کے الگ تھلگ ہوجانے کا باعث بنتا ہے۔ ان تین امکانات پر غور کریں تو پتہ چلتا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی باوقار امکان نہیں ہے اور ان میں سے کوئی بھی امکان کوئی بھی ایجنسی پیش نہیں کرتی جیسا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف شروع کی گئی شااہین باغ تحریک نے دکھایا کہ مسلم معاشرے میں قیادت، تخلیقی خیالات اور توانائی کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن اس کا قومی دھارے کی سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ایک مربوط ایک موثر سیاست کی تشکیل اس دور کے دبائو سے پر اور مشکل سیاسی پراجکٹ میں سے ایک ہے۔
سی ایس ڈی ایس میں میرے سابق رفیق اور میرے عزیز دوست ہلال احمد نے اسی سوال کو حل کرنے کے لیے مسلسل لکھا ہے اور پھر بعد میں بڑے غصہ کے ساتھ بھی لکھا ہے۔ انہوں نے اپنی انگریزی کتاب A Brief History of the Present Muslim in New India (نئے ہندوستان میں موجودہ مسلمانوں کی ایک مختصر تاریخ) (اگرچہ یہ کتاب بہت پہلے مکمل ہوچکی تھی لیکن 2024ء کے عام انتخابات کے بعد اس کی اشاعت عمل میں آئی) ویسے بھی ان کی ہندی کتاب ’’اللہ نام کی سیاست‘‘ شائع ہوچکی ہے جس میں انہوں نے مسلمانوں کی حالت زار سے متعلق بہت ہی پراثر انداز میں اپنا موقف پیش کیا ہے۔ ان کی تحریر چاہے ہندی میں ہو یا انگریزی میں بہت زیادہ پر اثر ہوتی ہیں اور وہ ان میں مسلمانوں کے ماضی، حال اور مستقبل کا احاطہ کرتے ہیں۔ مذکورہ انگریزی کتاب میں ہلال احمد نے 2014ء سے ’’نئے ہندوستان‘‘ میں مسلمانوں کی حالت زار پر توجہ مرکوز کی۔ میں نے پہلے اسے تصاویر کی شکل میں CSDS میں ان (بلال احمد) کے دفتر میں نوٹ کیا۔ وہاں مقدسہ کعبہ، مہاتما گاندھی اور چی گیورا (تین تصاویر کی شکل) میں دیکھا یہ تینوں یکسر مختلف نظریاتی نقطہ نظر کی نمائندگی کرتے ہیں جن کو وہ مربوط کرنا یا جوڑنا چاہتے ہیں۔
وہ ایک راسخ العقیدہ، دیندار مسلمان ہیں۔ دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتے ہیں اور ماہ مقدس رمضان المبارک میں روزوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ایک طرف جہاں وہ راسخ العقیدہ مسلمان ہیں وہیں ایک انقلابی بھی ہیں۔ مارکسزم سے متاثر ہیں اور زدنگی کے تمام شعبوں میں مساوات اور سماجی انصاف کے نظریات کے لیے پرعزم اور پابند عہد ہیں اور اگر یہ امتزاج کافی نہیں ہے تو وہ سرودھرما سمبھباو سے گاندھیائی نظریات اور ستیہ گرہ کی ان کی سیاست عدم تشدد کے برانڈ پر یقین رکھتے ہیں۔ ویسے بھی ان تاروں کو جوڑنا یا بننا کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس نظریاتی اتحاد و انضمام کے لیے ان کی کوششیں ہنوز جاری ہیں لیکن اس سے ایک الگ نقطہ نظر سامنے آیا ہے اور وہ یہ ہے کہ میں بحیثیت مسلمان اپنی شاخت ترک نہیں کرنا چاہتا۔ اس کے باوجود میں صرفایک مسلمان کی حیثیت سے بات نہیں کرنا چاہتا غرض وہ ہمیں مسلمانوں سے زیادہ کی سیاست کے بارے میں سوچنے کی دعوت دیتے ہیں جو مسلم سوال پر سب سے زیادہ مجبور نقطہ نظر ہے۔ حسن اتفاق سے یہ عام طور پر سکیولر سیاست کے لیے ایک اچھا نقطہ نظر ہوسکتا ہے۔ ایک پیر کمیونٹی اور اس کی روایات میں تو دوسرا پائوں بری مضبوطی کے ساتھ اس کے بارہ رکھا جاتا ہے۔ ہلال احمد مسلمانوں پر ہر روز جسمانی اور علامتی حملوں کے بارے میں گہری فکرمندی ظاہر کرتے ہیں لیکن ان کی خاص بات یہ ہے کہ وہ اپنی پریشانی کو اپنے فیصلے سے حاوی نہیں ہونے دیتے۔ ان کی تحریروں میں یقینا حقیقت نظر آتی ہے۔ ایک اور بات ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں یا اپنی تحریروں میں شکوہ سے گریز کیا ہے تاہم ناراضگی ضرور جتائی ہے۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ متحدہ مسلم سیاسی بلاک کا جو آئیڈیا ہے وہ ناقابل قبول ہے ناپسندیدہ اور غیر پیداواری ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی صحتمند سیاست بہت سی مسلم برادریوں کی سیاست ہوگی جن میں سے ہر ایک کے پاس انتخاب کرنے کے لیے ایک سے زیادہ امکانات پائے جاتے ہیں اور اس معاملہ میں وہ پولیٹکل سوشیالوجسٹ امتیاز احمد کے شاندار کام کی پیروی کرتے ہیں۔ ہندوستان میں کوئی ایک مسلم کمیونٹی نہیں ہے بالکل اسی طرح جیسے کوئی ایک ہندو برادری نہیں ہے۔ دین اسلام کی پیروی کرنے والے بے شمار برادریاں ہیں جن میں سے ہر ایک کی الگ الگ نسلیں، زبانیں، سماجیات و اقتصادی مقامات اور درحقیقت مختلف مذہبی رسومات ہیں۔ یہ ایک متحد ملک گیر مسلم سیاسی برادری کے منصوبہ کے خلاف ہے جس کے لیے مسلم بنیاد پرستوں چند مسلم لیڈران اور علماء کے ایک حصہ نے کام کیا ہے۔ لہٰذا ایک یکساں اور علیحدہ مسلم میناریٹی بلاک کا خیال فائدہ اٹھا سکتا ہے اور اس کے عوض یکساں و علیحدہ ہندو سیاسی بلاک کے منصوبہ میں اپنا حصہ ادا کرسکتا ہے اور جس کا بی جے پی برسوں سے خواب دیکھ رہی ہے۔ یہ مسلمانوں کو تقسیم کرنے کے بارے میں نہیں ہے بلکہ مقامی مسلم برادریوں کو غیر مسلم کمیونٹیز کے ساتھ جوڑنے کے بارے میں بھی ہے۔ جن کے ساتھ وہ سماجی اور معاشی تعلقات رکھتے ہیں۔