سی اے اےمکاری … این پی آردھوکہ … این آر سی سازش

   

قوانین میں نہ اُلجھاؤ ، نوٹ بندی ’چوراہوں‘ کو ہے ہنوز ’انتظار‘
مودی۔ شاہ نے مسلمانوں کو جگا دیا۔ ہندو، مسلم قریب ہوگئے ۔ 2014ء سے جاری ناکامیوں پر بھی ایجی ٹیشن ضروری

عرفان جابری
آج ان سطور کے ذریعے میری کوشش ہے کہ دیڑھ ماہ سے جاری مخالف سی اے اے، این پی آر، این آر سی احتجاجوں کے پس منظر ، موجودہ منظر کے علاوہ آگے کی ممکنہ صورتحال کا خلاصہ کروں۔ بی جے پی کی مودی۔ شاہ حکومت اور آر ایس ایس کے گھناؤنے منصوبوں کے بارے میں بتاؤں۔ ہندوستان کیلئے موجودہ طور پر نقصان دہ بلکہ خطرناک مرکزی حکومت کے خلاف اپنے اور مسلمانوں نیز ابنائے وطن کیلئے آئندہ کا پروگرام پیش کروں۔
بدنیتی پر مبنی قوانین کا پس منظر یہ ہے کہ مودی حکومت کو مئی 2014ء سے آج تک ہر محاذ پر اپنی ناکامیوں سے قوم کی توجہ ہٹانا ضروری تھا، جس میں وہ سو فیصدی کامیاب ہوئے ہیں۔ اب منظر یہ ہے کہ نامعقول قوانین پر ردعمل میں جاریہ ایجی ٹیشن مودی۔ شاہ کی منصوبہ بندی میں ممکنہ طور پر نہیں تھا۔ وہ شاید سمجھ رہے تھے کہ تین طلاق قانون، جموں و کشمیر سے متعلق آرٹیکل 370 کی تنسیخ، متنازع بابری مسجد اراضی ملکیت کیس میں رنجن گوگوئی کی پانچ رکنی سپریم کورٹ بنچ کے ’کسی کو سمجھ نہ آئے فیصلہ‘ پر ہندوستانی مسلمان خاموش رہے۔ مذکورہ بالا تینوں موقعوں پر مسلمان کیوں خاموش رہے، الگ بحث ہے۔ فی الحال تازہ موضوع پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔
مودی حکومت 2.0 میں اندرون چھ ماہ پارلیمنٹ کے ذریعے تین بڑے کام ہوجانے کے بعد نئے وزیر داخلہ ساتویں آسمان پر پہنچ گئے اور پی ایم ہوسکتا ہے خود کو بونا سمجھنے لگے۔ شاید اسی لئے امیت شاہ کو کھلی چھوٹ دے دی کہ جو کھوپڑی میں آئے، بولتے جاؤ اور کرتے جاؤ، چاہے پارلیمنٹ کے ایوان میں ہو، انتخابی جلسہ میں ہو، ٹی وی انٹرویو میں ہو۔ انھوں نے اپنی فطرت کے مطابق حد سے زیادہ خوداعتمادی کا مظاہرہ کرتے ہوئے شہریت ترمیمی بل (CAB)کو اندرون 72 گھنٹے شہریت ترمیمی قانون (CAA) بناکر گزٹ آف انڈیا (حکومت ہند کا مصدقہ قانونی دستاویز بہ شکل جریدہ جو سرکاری محکمہ ہفتہ وار شائع کرتا ہے) میں 10 جنوری کو شامل بھی کرا دیا۔ بی جے پی منشور 2019ء میں شامل نمایاں وعدوں میں یہی CAA تیسرا بڑا کام ہوا، مگر مودی۔ شاہ کیلئے مہنگا پڑگیا۔
اوپر والے کا شکر ادا کرلیا جائے کہ اُس نے مودی حکومت میں امیت شاہ کی شمولیت کے ذریعے مسلمانوں کی بڑی تعداد کو غفلت کی نیند سے جگا دیا ہے، الحمدللہ! تاہم، مسلمانوں کو اب جاگنے کے بعد ہندوستان میں اپنے جائز حقوق کیلئے جی جان کی بازی لگا کر محنت کرنا ہوگا۔ مسلمان فطری طور پر محب وطن ہوتا ہے لیکن آج کی دنیا دکھاوے سے متاثر ہوتی ہے۔ ٹھیک ہے، ہم انگریزوں سے ملک کی آزادی کیلئے لڑے تھے، اب انا کے پجاری و متکبر فرقہ پرستوں، منافقین، نامعقول سوچ رکھنے والوں سے دستورِ ہند، جمہوریت اور ملک کی تہذیبی خوبصورتی ’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی کو بچانے کیلئے لڑیں گے، مگر اب لڑیں گے ضرور۔ سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اب پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آزاد رہیں گے، یا پھر نہیں رہیں گے۔
سی اے اے اور یکم ؍اپریل 2020ء سے معلنہ این پی آر دونوں کے خلاف حکومت کیرالا سمیت درجنوں فریق سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے ہیں۔ عین ممکن ہے یہ معاملہ یکم ؍ اپریل سے ٹھیک پہلے پہلے تک عدالتی کشاکش سے گزرتا رہے گا۔ سپریم کورٹ بابری مسجد جیسا ایک اور فیصلہ دے تو پھر ملک اور حکومت کیلئے بڑی مشکل پیدا ہوسکتی ہے کیونکہ عوام یہ بکواس قوانین کو قبول کرنے کے موڈ میں ہرگز نہیںہیں، جو صرف اور صرف ساڑھے پانچ سالہ ناکامیوں کے نتیجے میں ہندوستانی معیشت کو دیوالیہ کے دہانے پر پہنچادینے والے اپنا منہ چھپانے کیلئے قوم کے سامنے لائے ہیں۔ اب اس نکمی حکومت کے احمقانہ احکام نہیں چلیں گے۔ مودی۔ شاہ کو جن 38% ووٹروں کے بل بوتے پر اقتدار ملا ہے، اُن کی شہریت کی تصدیق کا انہیں اتنا ہی شوق ہے تو شہریت جیسا معاملہ تو ملک کے اول شہری صدرجمہوریہ اور ووٹروں کے ذریعہ راست منتخب اعلیٰ ترین عوامی خدمت گزار وزیراعظم سے شروع ہونا چاہئے۔ پہلے رامناتھ کووند اور نریندر مودی اپنی شہریت ثابت کریں۔
بہرحال مودی حکومت کو سب سے بڑے نوٹ بندی اسکام کا جواب دینا ہوگا۔ انھوں نے 2016ء میں نوٹ بندی کے بعد چیخ چیخ کر قوم سے 50 دن کی مہلت مانگ کر وعدہ کیا تھا کہ نوٹ بندی اگر عوام کے حق میں ناکام ہوجائے تو قوم کی طرف سے کوئی بھی سزا کسی بھی چوراہے پر اُن کو قبول ہوگی۔ ملک بھر کے چوراہوں کو زائد از تین سال سے ’انتظار‘ ہے۔
ہم کو اب صرف سی اے اے، این پی آر ، مجوزہ این آر سی کی مخالفت میں ایجی ٹیشن جاری رکھنا نہیں ہے بلکہ متوازی خطوط پر دوسرا ایجی ٹیشن چلانا ہوگا۔ قوم کو واقف کرانا ہوگا کہ ساڑھے پانچ سال میں مودی اینڈ کمپنی نے ہندوستان کی کیا درگت بناڈالی ہے؟ اس حکومت سے ہر ہر سرکاری اقدام کا حساب لینا ہوگا۔ وہ 303 لوک سبھا ایم پیز کے زعم میں نہ رہیں۔ ہندوستانی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ اس سے بڑی اکثریت ہوا ہوئی ہے۔ مودی جی! خبردار۔ پچھلے چھ ماہ سے پانچ لوگ حکمران طبقہ کی بڑھ چڑھ کر نمائندگی کررہے ہیں: نریندر مودی، امیت شاہ، موہن بھاگوت، ’یوگی‘ آدتیہ ناتھ اور راجناتھ سنگھ۔ دہا 1990ء کے اے بی واجپائی کی طرح راجناتھ زیادہ تر خاموش رہتے ہیں، چاہے ان کا قلمدان کچھ بھی ہو۔ بقیہ چاروں کو خبروں میں رہنے کا خبط ہے۔
اگر سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کے حق میں پانسا اُلٹا پڑجائے یا اس کے برعکس سازگار عدالتی فیصلہ آئے مگر ملک کا ماحول سازگار نہ ہو تو بی جے پی و آر ایس ایس اپنے پرانے کھیلوں کو دہرا سکتے ہیں۔ رام مندر کا مسئلہ تو رہا نہیں، آرٹیکل 370 بھی ختم ہوگیا، پاکستان پاکستان بہت کرلئے۔ تاہم، ’’کتنی حیرت کی بات ہے کہ 2014ء سے ملک میں دھماکے نہیں ہوئے۔ ورنہ 2004ء سے 2014ء تک ایسا کبھی نہیں ہوا۔ عوام ایک دھماکہ فراموش نہیں کرپاتے تھے کہ تازہ دھماکہ ہوجایا کرتا تھا۔‘‘ اب دھماکہ ہو کہ گودھرا واقعہ، مقصد تو یکساں ہے: فسادات کے ذریعے ہندو کو مسلم سے ڈرانا اور مسلم کو ہندو سے۔ بھرپور نفرت پیدا ہوجائے تو آنے والے کئی اسمبلی الیکشن اور 2024ء کے پارلیمانی چناؤ کا بندوبست ہوجائے گا۔ اس کیلئے اترپردیش اور ’یوگی‘ جی کی جوڑی ویسی ہی رہے گی جیسے 2002ء میں گجرات اور مودی جی نے محنت کی۔
مسلمانوں پر اوپر والے کا اب بھی کرم ہے کہ اُس نے ’’پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانہ سے‘‘ کے مصداق بظاہر کروڑہا تنگ نظر، متعصب اکثریتی ہندو برادری میں سے ہندوستانی اقلیتوں کیلئے بے شمار حامی اُبھار دیئے ہیں۔ غیرمسلم ابنائے وطن کی مسلمانوں کو تائید و حمایت کی دو وجوہات ہیں۔ اول تو سب غیرمسلموں کی گھٹیا ذہنیت نہیں ہوتی۔ دوم یہ کہ ’مکار‘ سی اے اے (شہریت ترمیمی قانون 2019ء) سے ایسا نہیں کہ تمام غیرمسلم افراد کو فائدہ ہونے والا ہے ۔ ’غیرضروری‘ این پی آر (نیشنل پاپولیشن رجسٹر) کے ’دھوکہ‘ اور مجوزہ این آر سی (نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس) کا ’سازشی‘ منصوبہ دراصل آر ایس ایس (1925ء میں جرمن ظالم اڈالف ہٹلر کی سوچ سے متاثر ہو کر تشکیل دی گئی تنظیم ’راشٹریہ سویم سیوک سنگھ‘)کے پراچین بھارت (قدیم بھارت) یا اکھنڈ بھارت (انڈیا، پاکستان، بنگلہ دیش، افغانستان اور دیگر علاقے) کے 95 سالہ خواب کی تکمیل اور ’منوسمرتی‘ (ہندومت کے دھرموں میں رائج قدیم مذہبی نظام) کے نام پر ’رام راجیا‘ کے احیاء کی سمت احمقانہ پیش رفت ہے۔ اس میں ہندومت کے وہی چار سماجی طبقات ہوں گے: برہمن (مذہبی افراد جیسے پجاری)، شتریہ (حکمران، جنگجو وغیرہ)، ویشیا (فنکار، تاجر وغیرہ) اور شودرا (مزدور طبقہ)۔
سی اے اے، این پی آر اور مجوزہ این آر سی کا پس منظر بی جے پی کے دو انتخابی منشور 2014ء اور 2019ء ہیں۔ میں نے جدول کی شکل میں دونوں کو مختصراً پیش کیا ہے۔ یوں تو درجنوں وعدے ہیں لیکن نمایاں 10 کو پیش کیا گیا ہے۔ 2014ء کے جنرل الیکشن میں 282 لوک سبھا سیٹیں (30 سال بعد سادہ اکثریت کا حصول) پانے کے بعد پوری میعاد بالخصوص وزیراعظم نریندر مودی اور بالعموم بی جے پی و آر ایس ایس بے قابو رہے۔ پی ایم نے جی بھر کے بیرون ملک سیرسپاٹے کئے۔ بی جے پی اور آر ایس ایس کو لنچنگ، گائے۔ بیف، گھر واپسی، لوو جہاد جیسی سرگرمیوں کی سرپرستی سے فرصت نہ ملی۔ چنانچہ بی جے پی منشور 2014ء کے تمام دس نمایاں وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ ایک بھی پورا نہ کیا جاسکا۔ بلکہ پی ایم مودی نے ’’نوٹ بندی‘‘ جیسا ملک کا سب سے بڑا اسکام کرڈالا۔ چند ماہ بعد جی ایس ٹی (جنرل سرویسیس ٹیکس) سے ملکی معیشت کو زوال کی طرف ڈال دیا۔
البتہ مودی حکومت کی پہلی میعاد کے دوران صدر بی جے پی امیت شاہ کی قیادت میں پارٹی کمزور اپوزیشن بالخصوص کانگریس کے سبب یکے بعد دیگر کئی ریاستوں میں اپنی حکومتیں بناتی گئی۔ مگر مودی حکومت کیلئے لگ بھگ صفر کارکردگی کے ساتھ 2019ء کے عام انتخابات کا سامنا مشکل ہورہا تھا۔ راہول گاندھی کے رفائل لڑاکا جٹ طیاروں کے مبینہ اسکام کو حکومت نے کسی طرح دبا دیا۔ پاکستان مودی اور بی جے پی کیلئے ہمیشہ ’ماسٹر اسٹروک‘ کا موضوع رہا ہے۔ اس مرتبہ بھی وہی کام آیا۔ پلوامہ حملہ ہوا اور اس کے ردعمل میں مودی حکومت نے بالاکوٹ پر فضائیہ کی کارروائی میں مبینہ طور پر کئی دہشت گرد ہلاک کرڈالے۔ پورے ہندوستان کو تو بے وقوف نہیں بناسکتے۔ چنانچہ ای وی ایم (الیکٹرانک ووٹنگ مشین) کو اِس بار وی وی پیاٹ (ووٹر ویریفائیڈ پیپر آڈٹ ٹریل) جوڑ کر منتخب جگہوں پر منتخب نتائج حاصل کئے گئے جس کو کئی گوشے ثابت کرچکے ہیں۔ پھر بھی میرا دعویٰ نہیں کہ بی جے پی نے تمام 303 نشستیں EVMs میں مبینہ اُلٹ پھیر کے ذریعے جیتے ہیں۔
بی جے پی اور حلیفوں کے ساتھ این ڈی اے (نیشنل ڈیموکریٹک الائنس) کو تقریباً دو تہائی اکثریت (362 لوک سبھا ممبرز) حاصل ہونے پر مودی، بی جے پی، آر ایس ایس کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ انھوں نے طے کیا کہ یہ میعاد بس ’’فیصلہ کن وار‘‘ ہونا چاہئے۔ امیت شاہ کو پارٹی کیلئے پانچ سالہ شاندار کارکردگی پر وزیر داخلہ بنا دیا گیا۔ مئی 2019ء میں دوسری مرتبہ پی ایم کاحلف لینے کے بعد مودی نے ’’سب کا ساتھ، سب کا وکاس، سب کا وشواس‘‘ کا ڈھونگی نعرہ قوم کو سنایا۔ اور دونوں منشور میں شامل نہ ہونے کے باوجود سب سے پہلے مسلم پرسنل لا کو نشانہ بنانے کیلئے بعض ناقصات العقل عورتوں کی حمایت کے ساتھ قانون تین طلاق 2019ء نافذ کرایا جس کے تحت شوہر کو ایک نشست میں تین طلاق دینے پر تین سال تک جیل کی سزا ہوسکتی ہے۔ اس کے بعد فیملی کا کیا ہوگا، خدا ہی جانے! شاید پی ایم کو لگا کہ تین طلاق قانون سے مسلم خواتین کے ووٹ ملنے لگیں گے۔ شاہین باغ دہلی میں چھوٹی بچیوں سے لے کر معمر خواتین تک ایک ماہ سے احتجاج پر ہیں۔ مدعو کرنے کے باوجود پی ایم نے احتجاجی خواتین سے ایجی ٹیشن کی وجہ جاننے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔
irfanjabri.siasatdaily@gmail.com