مفتی حافظ سید صادق محی الدین فہیم
شہریت ترمیمی قانون‘سی اے اے
‘ Citizenship A
mendmentAct2019 ا
ورقومی شہری رجسٹریشن‘ این آر سی
RegisterofCitizens) (National
دو دھاری تلوار ہیں‘اور اب این پی آر
(National Population Register)
جو این آر سی کا پہلا زینہ ہے ،ان غیر انسانی و غیر جمہوری سیاہ قوانین نے پورے ملک کے امن و امان کو خطرہ میں ڈال دیا ہے‘ان سے چونکہ جمہوریت کی قدریں مجروح ہونگی اور ملک کا شیرازہ بکھر جائے گااس لئے ان کی منظوری سے پہلے ہی سے ملک کے جمہوریت پسند دانشوروں‘سنجیدہ شہریوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی ہے ان کا ماننا ہے کہ ان قوانین سے چونکہ ملک کی بقاء کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے ، اس لئے ان کے خلاف سونچنے سمجھنے ‘ کوئی سنجیدہ مہم چھیڑنے پرغور و خوض کرنے اورکچھ کر گزرنے پر اس نے مجبور کردیا ہے ‘یہی وجہ ہے کہ ملک میں رہنے والے تمام طبقا ت میںشدید بے چینی پائی جاتی ہے ‘ اور اس بے چینی کا اظہار ملک کی تقریباً ریاستوں میں ان قوانین کے خلاف پرامن احتجاجی ‘جلسوں‘جلوسوں اور ریالیوں سے عیاں ہے ‘ان قوانین کی بنیاد چونکہ مذہب پر رکھی گئی ہے جو ملک کے دستور و آئین کے سخت خلاف ہے اس لئے پورے ملک میں سخت بے چینی و اضطراب کا ماحول بنا ہوا ہے ‘غیر ملکی اقلیتوں سے ہمدردی یقیناً حق بجانب ہے اگر کسی ملک میں اقلیتوں پر ظلم ہورہا ہوتو اس کا سدباب ضرور کیا جانا چاہئے ‘واقعی اگر ظلم ہورہا ہواور ان کے حقوق چھینے جارہے ہوں تو ہندوستان کے مسلمان ہر گز اس ظلم کی تائید میں نہیں ہیں بلکہ وہ ان کی مدد کیلئے جو کچھ بن پڑتا ہوکرنے کیلئے تیار ہیں اور اگر حکومت انسانی بنیادوں پر ہمدردانہ نقطہ نظر سے ایسے کوئی اقدامات بروئے کار لاناچاہتی ہے تو مسلمان بھی حکومت کے شانہ بشانہ کھڑے رہیں گے ‘ لیکن پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں سے فرضی ہمدردی کے عنوان سے ملک کی اقلیتوں خاص طور پر مسلم اقلیت کو نشانہ پر رکھنایقیناًملک کے دستور کے ساتھ کھلواڑ ہے جس کی ہرگز اجازت نہیں ملنی چاہئے ‘عجیب بات ہے کہ غیر ملکی اقلیتوں کے حقوق کی توحکومت کو بڑی فکر ہے لیکن خود اپنے ملک کی اقلیتوں کو حقوق سے محروم کرنا اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموش رہنا بلکہ انسانیت سوز واقعات کے مرتکبین اور انسانیت و شرافت کی دھجیاں تار تار کرنے والے ظالموں کی حوصلہ افزائی کرنا کہاں کا انصاف ہے ‘ ملک کے دانشورو ں کا سوال ہے کہ پڑوسی ممالک کی اقلیتو ں کو اگر ہندوستان کی حکومت شہریت دینا چاہتی ہے تو پھر یہ بات کس قدر عجیب ہے کہ خود ہندوستان کے شہری جن کے آباء واجداد صدیوں سے ہندوستان کے شہری رہے ہیں اور جنہوں نے ہندوستان کی آزادی میں گھر بار لٹائے ہیں اور جان و مال کی قربانیاں دی ہیں ان سے شہریت کا ثبوت مانگا جائے؟یہ بھی سوال ہے کہ اس قانون کے تحت پڑوسی ممالک بنگلہ دیش ‘ پاکستان ‘ افغانستان کے عیسائی ‘پارسی ‘ جین‘ سکھ اور بدھسٹ کو شہریت دی جائے گی ان پر یہ چشم التفات کیوں ہے اور مسلمانوں پر کیوں نہیں ؟کیا یہ دستور بلکہ انسانیت و شرافت کے مغائر نہیں ہے ؟ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب مظلوموں کی مدد کے جذبہ سے یہ قانون بنایا گیا ہوتو پھر نیپال ‘ سری لنکا ‘ میانمار میں بھی مظلوموں کی ایک بڑی تعداد ہے ‘میانمار میں جہاں روہنگیائی مسلمان ظلم و بربریت کا شکار ہیں وہیں سری لنکا میں ٹامل ہندوبھی ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں‘وہ آ پ کی مدد سے آخر کیوں محروم ہیں‘الغرض قومی ‘علاقائی ونظریاتی اساس پر تفریق کی رائے ساور کر کی تھی جس کے نقش قدم پر اب بی جے پی حکومت گامزن ہے۔ابھی کچھ دن قبل ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلے نے ووٹر آئی ڈی اور پاسپورٹ وغیرہ کو شہریت کے ثبوت کیلئے کافی قرار دیا ہے ‘لیکن حکومت کے اہم عہدہ پر فائزوزیر داخلہ امیت شاہ ببانگ دہل اعلان کررہے ہیں کہ یہ سارے دستاویزات شہریت کو ثابت نہیں کرتے ‘جبکہ اسی بنیاد پر آپ کی حکومت کو ووٹ ملے ہیں‘اور اس وقت آپ ہندوستان پر حکومت کررہے ہیں اگر یہ دستاویزات شہریت کو ثابت نہیں کرتے تو پھر آپ کی حکومت کو دستبردار ہوجانا چاہئے ‘ کیونکہ آپ کے خیا ل کے مطابق غیر شہریوں نے آپ کو ووٹ دیا ہے ‘ سوال یہ ہے کہ ان جیسی دستاویزات کی بنیاد پر ساری دنیا شہری ہونا تسلیم کرتی ہے اور اسی بنیاد پر ملک کے شہری دوسرے ملکوںکا سفر کرتے ہیں۔بیرونی دنیا میں ہندوستانی شہریوں کے ہندوستانی شہری ہونے کے ثبوت کے طور پرہی ماناجاتاہے اور اسی بنیاد پر اندراجات کئے جاتے ہیں۔پھر اس شہریت ترمیمی قانون سے حقیقی شہریوں کی شہریت پر وار کرنے کا دستور ی و قانونی جواز کہا ںسے فراہم ہوسکتا ہے ؟
مظلوم خواہ کوئی ہوں ‘خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتے ہوںوہ مظلوم ہیں ‘انسانی بنیادوں پر ان کا ہاتھ تھامنا چاہئے ایسی عینک استعمال کرنا چاہئے جس میں سارے مظلوم بلالحاظ مذہب و ملت واضح طور پر دکھائی دیںاورپھر منصفانہ طور پر ان کا مداوا بھی ہو‘ مظلوموں کے ساتھ انصاف رسانی کے جذبہ میں سچائی و صداقت ہوتو وہ ’’عینک انصاف و عدل گستری ‘‘کی ہونی چاہئے ‘ نہ کہ ظلم و ناانصافی کی جو مظلوموں پر مزید ظلم ڈھانے کا سبب بنے اور مصیبت زدگان کومزیدمصیبت و آزمائش میں مبتلا کرے ‘دستور و آئین بھی اسی کے موئیدہیں ‘اور انسانیت و شرافت بھی اسی کا تقاضہ کرتی ہے۔
دنیا کے اور ممالک ترقی کررہے ہیں‘ سنجیدہ منصوبہ بندی کے ساتھ غربت کے خاتمہ کیلئے وہ کوشا ں ہیں ‘قابل لحاظ حد تک اس میں وہ کامیاب ہیں لیکن ہمارے ملک میں غربت ہے کہ روز بروز اس میں اضافہ ہی دیکھا جارہا ہے ‘ صورتحال یہ ہے کہ ملک کے اکثر شہری خط غربت سے نیچے رہ کر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘ ماہرین دستور و قانون اور ملک کی معاشی و اقتصادی صورتحال پر گہری نظر رکھنے والوں کا تجزیہ یہ ہے کہ ہمارا ملک قانون کی بے وقعتی و بے وقاری و معاشی واقتصادی پستی کا شکار ہے ‘ہماری حکومت اپنی رعایا کے مسائل کو حل کرنے میں شدید ناکام ہے ‘تو پھر بیرونی شہریوں اور خاص طور پر ان کی اقلیتوں کا بوجھ اٹھانے کی فکر کرنا کیا یہ کوئی دانشمندی کا کام ہوسکتا ہے؟ پھر یہ بھی سوال ہے کہ آخر ان کو کہاں بسایاجائے گا ؟ان کے روزگار کی فراہمی کی کیا صورت ہوگی ؟جبکہ ملک کے شہریوں کیلئے روزگار کے سارے ذرائع بند ہیں ‘حکومت کے محکموں میں شہریوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے ‘ جی ایس ٹی وغیرہ جیسے قوانین کی وجہ تجارت و کاروبار ٹھپ ہیں فیکٹریوں اور کارخانوں پر تالے لگ رہے ہیں ایسے میں ملک کے غریب شہری دانے دانے کو ترس رہے ہیں اس کو حل کرنے کی کوئی منصوبہ بند کوشش کرنے کے بجائے غیر ملکی شہریوں کو شہریت دینا اور ان کو اپنے ملک میں بسانا گویاسماجی و معاشی اعتبار سے ملک کو اور پستی کی طرف ڈھکیلنا ہے۔بقول علامہ اقبال رحمہ اللہ
تجھے کیوں فکر ہے اے گل دل صدچاک بلبل کی
تو اپنا دامن صدچاک تو پہلے رفوکرلے
طرفہ تماشہ یہ کہ ملک کا سرمایہ رعایاکی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہئے جبکہ آسام میں این آر سی پر 1600 کروڑ روپئے کا صرفہ عائد ہواہے ‘مزیدپوری ریاستوں میں یہ قانون لاگو کردیا جائے تو غور کرنا چاہئے کہ کتنے مصارف عائد ہونگے اور خزانے پر بے مقصد کتنا اضافی بوجھ ہوگااس منصوبہ پر جو بجٹ طئے کرلیا گیا ہے اگر وہی رعایا کے بنیادی مسائل کے حل میں خرچ کرنا طئے کرلیا جائے تو ملک کے شہریوں کا بھلا ہوگا‘سونچنا چاہئے کہ ملک کے حقیقی باشندوں کی ۷۰ فیصد سے زائد آبادی ایسی ہے جو بنیادی سہولتوں سے محروم ہے‘ تعلیم کا حصول اور بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کیلئے روزگار ان کے لئے ایک خواب ہے جس کی تعبیرملنے کے امکانات بظاہر موہوم ہیں ‘ علاج و معالجہ کی سہولتیں بھی عنقاء ہیں ‘روٹی ‘کپڑا‘ مکان ‘حصول تعلیم ان کی دسترس سے باہر ہے ‘دولت کالے دھن کی صورت میں سمٹ کر چند سرکردہ شہریوں کے ہاتھوں میں آگئی ہے‘سوئس بینک Bank Swiss ا ن رقومات کی حفاظت گاہ بنے ہوئے ہیں ‘نوٹ بندی کاقانون لاگو کرتے ہوئے حکومت نے اعلا ن کیا تھا کہ کالا دھن واپس لوٹ کر آئے گا ‘اور ہر ہندوستانی شہری کے اکاونٹ میں ۱۵ لاکھ روپئے جمع ہونگے ‘لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ‘ماہرین اقتصادیات کی رائے ہے کہ اس قانون نے کالا دھن رکھنے والوں کو نہ صرف تحفظ فراہم کیا ہے بلکہ ان کی بلیک منی ‘ Black Moneyکووائٹ منی White Moneyمیں تبدیل کردیا ہے چونکہ غریب اور متوسط شہری ہی لائن میں کھڑے نظر آئے کسی سرمایہ دار کو بینک کی لائنوں میں کھڑا نہیں دیکھا گیا‘تو پھرآخر ایسا کیا چمتکارہوگیا کہ بینکوں کی لائنوں میں کھڑے بغیر ہی ان کے کالے دھن کی تبدیلی کا کام انجام پاگیا۔