تلنگانہ نے نئی تاریخ رقم کی، شہریت قانون سے دستبرداری کا مطالبہ ، این آر سی اور این پی آر پر عمل آوری روکنے پر بھی زور
حیدرآباد ۔16۔ مارچ (سیاست نیوز) تلنگانہ اسمبلی نے آج مرکز کے سیاہ قوانین کے خلاف قرارداد منظور کرکے نئی تاریخ رقم کی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے شہریت ترمیمی قانون این آر سی اور این پی آر کے خلاف قرارداد پیش کی جسے تین گھنٹے طویل مباحث کے بعد منظور کرلیا گیا ۔ قرارداد میں مرکز سے مانگ کی گئی شہریت ترمیمی قانون سے دستبرداری اختیار کرے اور مذکورہ قانون میں ترمیم کے ذریعہ مخصوص مذاہب اور ممالک کی پابندی ختم کردے ۔ قرارداد میں این آر سی اور این پی آر کو غیر دستوری اور غیر قانونی قرار دیا گیا۔ تلنگانہ حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ ریاست میں این آر سی اور این پی آر پر عمل آوری کو روکنے تمام ضروری قدم اٹھائے۔ کانگریس اور مجلس نے قرارداد کی تائید کی جبکہ بی جے پی رکن قرارداد کے خلاف احتجاج کرتے رہے ۔ احتجاج درمیان اسپیکر پوچارم سرینواس ریڈی نے ندائی ووٹ سے قرارداد کی منظوری حاصل کی۔ 6 صفحات پر مشتمل قرارداد میں شہریت قانون این آر سی اور این پی آر کے قانونی اور دستوری جواز کو چیلنج کرتے ہوئے ملک کے کروڑہا عوام میں پائے جانے والے شبہات کو واجبی قرار دیا گیا ۔ قرارداد میں کہا گیا کہ شہریت ترمیمی قانون سے سماج کے مختلف گوشوں میں شدید اندیشے پائے جاتے ہیں۔ افغانستان ، پاکستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلموں کو شہریت کی فراہمی کے فیصلہ کے خلاف ملک بھر میں احتجاج جاری ہے ۔ تلنگانہ ریاست مختلف مذاہب اور تہذیبوں پر مشتمل ہے اور یہاں بھی شہریت قانون این پی آر اور این آر سی کے خلاف سیاسی ، سماجی اور مذہبی وابستگی سے بالا تر ہوکر پرامن احتجاج کئے جارہے ہیں۔ حکومت ہند نے یکم اپریل تا 30 ستمبر نیشنل پاپولیشن رجسٹر (این پی آر) کی تیاری کا فیصلہ کیا اور رجسٹرار جنرل و سینسس کمشنر کو گھر گھر تفصیلات جمع کرنے کی ہدایت دی گئی ۔ سماج کے تمام طبقات بشمول معاشی طور پر پسماندہ طبقات اور ناخواندہ افراد نے اندیشے پائے جاتے ہیں کہ انہیں شہریت ثابت کرنے کیلئے اپنا اور اپنے والدین کے دستاویزی ثبوت پیش کرنے ہوں گے ۔ اس بات کا خدشہ ہے کہ مذکورہ عمل سے دلت ، آدیواسی ، پسماندہ طبقات اور لسانی اور مذہبی اقلیتیں متاثر ہوں گے ۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر شہریت کی فراہمی دستور کی دفعہ 14 کی خلاف ورزی ہے۔ اس کے علاوہ سیکولرازم کے اصول کے خلاف ہے جو دستور کی بنیادی روح ہے ۔ شہریت ترمیمی قانون کو این پی آر کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جانا چاہئے ۔ وزارت داخلہ حکومت ہند نے پارلیمنٹ میں پیش کردہ اپنی سالانہ رپورٹ 2018-19 ء میں کہا ہے کہ این پی آر ملک میں این آر سی کی سمت پہلا قدم ہے۔ حکومت ہند کے وزراء اور حکومت آسام کے بیانات کے مطابق شہریت ترمیمی قانون آسام کے ان غیر مسلموں کے تحفظ پر استعمال کیا جائے گا جو این آر سی میں شہریت پانے سے محروم رہ گئے ۔ قرارداد میں این پی آر اور این آر سی کی قانون و دستوری جواز کو چیلنج کیا گیا اور کہا گیا کہ مذکورہ قواعد سے عوام پر بھاری بوجھ پڑے گا تاکہ اپنی شہریت ثابت کرسکے۔ این پی آر کے تحت کسی کو بھی مشتبہ شہری قرار دیا جاسکتا ہے اور ہر شہری کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ این آر سی میں کسی دوسرے شخص کی شمولیت کے خلاف اعتراضات داخل کریں۔ ان حالات میں عوام میں پائے جانے والے شبہات حقیقی ہیں۔ عوامی اندیشوں اور شبہات کے پس منظر میں تلنگانہ قانون ساز اسمبلی حکومت ہند سے مطالبہ کرتی ہے کہ شہریت ترمیمی قانون 2019 ء میں ترمیم کرے اور کسی بھی مذہب اور بیرون ملک کے تذکرہ کو نکال دے۔ ایوان این پی آر اور این آر سی پر مجوزہ عمل آوری پر تشویش کا اظہار کرتا ہے جس کے ذریعہ بڑے پیمانہ پر ناموں کو نکال دیئے جانے کا اندیشہ ہے ۔ اسمبلی نے حکومت تلنگانہ سے مطالبہ کیا کہ وہ این پی آر اور این آر سی کے عمل سے عوام کو بچانے کیلئے تمام ضروری قدم اٹھائے ۔ چیف منسٹر کے سی آر کے علاوہ قائد اپوزیشن اکبر اویسی ، کانگریس فلور لیڈر بھٹی وکرمارکا ، ٹی آر ایس ارکان عامر شکیل ، ڈی سمن اور بی جے پی رکن راجہ سنگھ نے بحث میں حصہ لیا ۔ راجہ سنگھ قرارداد کی مخالفت کرتے ہوئے نشست سے اٹھے اور اسپیکر کے پوڈیم تک پہنچ گئے ۔ وہ اسپیکر اور چیف منسٹر کی بار بار اپیل کے باوجود قرارداد کے خلاف اظہار خیال کرتے رہے جس پر چیف منسٹر نے اسپیکر سے کہا کہ بی جے پی رکن کی حرکت ختم ہونے والی نہیں ہے ، لہذا قرارداد کو منظوری دیں۔ اسپیکر پوچارم سرینواس ریڈی نے قرارداد منظوری کے لئے پیش کی اور بی جے پی ماسوا دیگر تمام پارٹیوں کے ارکان نے قرارداد کی تائید میں ہاں کہا ۔ اس طرح قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ۔ اسپیکر نے لنچ کے وقفہ کا اعلان کرتے ہوئے اسمبلی کی کارروائی ملتوی کردی۔