سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت کا حلفنامہ داخل ، نئے قانون کے خلاف درخواستوں کی سماعت
نئی دہلی ۔ /17 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) مرکزی حکومت نے آج سپریم کور ٹ کو بتایا کہ شہریت ترمیمی قانون 2019 ء سے کسی بنیادی حق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی ۔ شہریت ترمیمی قانون کے جواز کو چیلنج کرنے سپریم کورٹ میں داخل درخواستوں پر 129 صفحات پر مشتمل حلفنامہ میں مرکز نے اس قانون کو دستوری و قانونی اعتبار سے درست قرار دیا اور کہا اس کی وجہ سے دستوری اقدار کی خلاف ورزی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ مرکزنے کہا کہ سی اے اے کے تحت پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مذہبی بنیادوں پر مظلوم اقلیتوں کو ہندوستان کے شہری کی حیثیت سے کوئی من مانی اور بے قاعدہ اختیارات تفویض نہیں کئے گئے بلکہ شہریت کیلئے طریقہ کار کے مطابق شہریت دی جائے گی ۔ وزارت داخلی امور کے ڈائرکٹر بی سی جوشی نے سپریم کورٹ میں یہ حلفنامہ داخل کیا ۔ عدالت نے /18 ڈسمبر 2019 ء کو شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے دستوری جواز کی جانچ کرنے کا فیصلہ کیا تھا ۔ لیکن عدالت نے اس پر حکم التواء سے انکار کردیا تھا ۔ گزشتہ سال پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں منظورہ سی اے اے کے ذریعہ پاکستان ، افغانستان اور بنگلہ دیش کے مذہبی بنیاد پر ستائے ہوئے ایسے ہندو ، سکھ ، بدھسٹ ، عیسائی ، جین اور پارسی طبقات کے نان مسلم افراد کو ہندوستانی شہریت دینے کی گنجائش رکھی گئی جو /31 ڈسمبر 2014 سے قبل ہندوستان آچکے ہیں ۔ اس قانون کو چیلنج کرکے سپریم کورٹ میں 100 سے زیادہ درخواستیں داخل کی گئی ہیں جن میں مسلم لیگ بھی شامل ہے جس نے اپنی درخواست میں کہا کہ نیا قانون مساوات کے بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے اور اس کے ذریعہ غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دی جارہی ہے جس میں سے ایک طبقہ کو مذہب کی بنیاد پر خارج کردیا گیا ہے ۔ چیف جسٹس ایس اے بوبڈے ، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس ایس سوریہ کانت پر مشتمل بنچ نے قبل ازیں مرکز کو نوٹس جاری کرکے ان درخواستوں پر جواب طلب کیا تھا ۔ درخواست گذاروں میں مسلم لیگ کے علاوہ کانگریس کے سینئر قائد جئے رام رمیش بھی شامل ہیں جنہوں نے اس قانون کے جواز کو چیلنج کیا ہے ۔ عدالت نے وکیل اشونی اپادھیائے کے استدلال سے اتفاق کیا کہ سی اے اے کے مقصد ، منصوبہ اور مواد سے عام آدمی کو واقف و باشعور کیا جائے ۔ عدالت نے اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال سے کہا کہ اس قانون سے عوام کو واقف کروانے سماوی و بصری ذرائع یعنی آڈیو ۔ ویژول میڈیم کے استعمال پر غور کرے ۔ وینو گوپال نے اس سے اتفاق کیا اور کہا کہ حکومت کی جانب سے جو بھی ضروری ہوگا کیا جائے گا ۔ انڈین مسلم لیگ نے درخواست میں قانون کی عمل آوری پر عبوری حکم التواء جاری کرنے کی مانگ کی تھی ۔ جے رام رمیش نے اس قانون کو دستور کے تحت دیئے گئے بنیادی حق پر ڈھٹائی سے کئے گئے حملہ سے تعبیر کیا ہے ۔ اسی طرح آر جے ڈی قائد منوج جھا ، ترنمول کانگریس ایم پی میوا ماوئترا اور مجلس کے اسد اویسی بھی اس کے خلاف درخواست داخل کرنے والوں میں شامل ہیں ۔ ایڈوکیٹ ایم آئی شرما اور قانون کے کئی طلباء بھی اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوئے ہیں ۔