سی اے اے پر ہٹ دھرمی سے بیرونی تعلقات کو خطرہ

   

نتن پئی
ہندوستان کی آبادی کا قابل لحاظ حصہ صرف نیک دلی والے بیرونی ماحول سے مانوس ہے جس میں امریکہ، یورپ، مشرق وسطیٰ، زیادہ تر مشرقی ایشیا اور آسٹریلیا، انڈیا کے تئیں مثبت رائے رکھتے ہیں۔ چین اور پاکستان کے علاوہ چند دیگر ملکوں نے ہمارے لئے مسائل پیدا کئے ہیں۔ یہ دونوں ملکوں کے مناسب احترام کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ دنیا کے اکثر ممالک ہندوستان کے موقف کی طرف آمادہ ہیں۔ کوئی بھی فرد جسے 1970، 1980 اور اوائل 1990ء کے دہوں میں ہندوستان کے خارجہ تعلقات یاد ہیں، وہ اس شعبہ کو غیرمعمولی پائے گا۔ کبھی ہمارے اتنے اچھے روابط نہیں تھے۔ بدبختی سے بعض کی گتھی سلجھ رہی ہے اور کئی دیگر کے ساتھ تعلقات جوکھم پر ہیں۔ عدیم النظیر معاشی انحطاط اور نریندر مودی حکومت کی اختیار کردہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے کہ آنے والے برسوں میں ہندوستان کے خارجہ تعلقات بگڑنے کا اندیشہ ہے۔
’بہترین دوست‘ کیساتھ روابط کو خطرہ
شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) اور ممکنہ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس (این سی آر) کے بارے میں جاری تنازعہ سے فوری نقصان بنگلہ دیش کے ساتھ باہمی رشتے کا ہے، جو ہندوستان کا کافی اہم اور اچھی طرح ہم آہنگ پڑوسیوں میں سے ہے۔ فی الحال ڈھاکہ نے اپنے شہریوں کو ہندوستانی سیاسی قائدین کی جانب سے ’بھوت‘ بنا کر پیش کرنے کو نظرانداز کیا ہوا ہے اور اپنے سرکاری موقف پر قائم ہے کہ یہ تبدیلیاں ہندوستان کے ’’داخلی امور‘‘ ہیں، لیکن بس کچھ وقت کی بات ہے کہ یہ موقف تبدیل ہوسکتا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزرائے خارجہ اور داخلہ ہندوستان کو اپنے دورے منسوخ کرچکے اور اس ملک کے سبکدوش سفیر نے اتنا تک کہہ دیا کہ بنگلہ دیشی ’’ہندوستان آنے کے بجائے سمندر میں تیرتے ہوئے اٹلی پہنچ جانا پسند کریں گے‘‘۔ وزیراعظم شیخ حسینہ جو ایک دہا قبل اقتدار پر آنے کے بعد سے قول و فعل میں کھلے طور پر موافق ہند رہی ہیں، ان پر بنگلہ دیش کی دیسی سیاست سے دباؤ پڑنا لازمی ہے کہ سخت موقف اختیار کیا جائے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتی ہیں تو ان کو اقتدار سے محروم ہونا پڑسکتا ہے۔ اُن کے سیاسی حریف بخوشی انڈیا کا مسئلہ چھیڑتے ہوئے گرمجوشی سے بیجنگ کے ساتھ ہوجائیں گے۔
اگر اس طرح کا انتہائی نتیجہ نہ بھی نکلتا ہے تو بنگلہ دیش ایسے وقت سکیورٹی تعاون کو روک سکتا ہے جب مودی حکومت لگ بھگ تمام آٹھ شمال مشرقی ریاستوں کو متزلزل کرچکی ہے۔ یہ سب کچھ کرنے سے قبل ایسی صورتحال پر غور تک نہیں کیا گیا کہ ہندوستانی حکومت نے بڑی تعداد میں لوگوں کو جنھیں وہ ’’غیرقانونی تارکین وطن‘‘ سمجھتی ہے، کس جگہ بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے؟ اس سے بدتر نتیجہ یہ ہوگا کہ شیخ حسینہ کو سیاسی طور پر ماند کرنے سے ہر علاقائی سیاسی لیڈر ہندوستان سے قربت اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہے گا۔ سری لنکا، نیپال اور مالدیپ میں کچھ زیادہ سیاسی قائدین نہیں جو موافق ہند موقف کی وکالت کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ جو چند ہیں وہ بھی مستقبل میں زیادہ محتاط ہوجانے کا امکان ہے۔ دوسری طرف خطہ کے موافق چین سیاسی قائدین جانتے ہیں کہ بیجنگ اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔
امریکہ ، یورپ میں لڑکھڑاتی پوزیشن
امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہندوستان کے رشتے تین ’پیروں‘ پر کھڑی تپائی کی مانند ہیں۔ بنیادی طور پر مشترک اقدار، معاشی مفادات اور جغرافیائی و سیاسی پہلوؤں کی اہمیت ہے۔ بہ الفاظ دیگر فراخدلانہ جمہوریت، ہندوستان کی بڑھتی معیشت اور چین کو چیلنج کرنے اس کی ممکنہ قابلیت کے تئیں مشترکہ عہد نئی دہلی کو پُرکشش پارٹنر بناتا ہے۔ اگر تینوں میں سے کوئی ’پاؤں‘ لڑکھڑانے لگے تو بُرے نتیجے کیلئے کافی ہے، لیکن اگر تینوں ’پیر‘ بکھر جائیں تو خود رشتے ہی خطرے میں پڑجاتے ہیں۔ امریکی نظم و نسق شاید کانگریس اور سیول سوسائٹی گروپس کی طرف سے بعض مسائل جیسے کشمیر، سی اے اے اور این آر سی کو نظرانداز کردے گا بشرطیکہ وہ نئی دہلی کو بیجنگ کے مقابل اہم معاشی پارٹنر کے طور پر کھڑا ہوتا دیکھے۔ اگر معاشی سست روی طول پکڑتی جائے اور نئی دہلی فری ٹریڈ کی طرف واپسی کرنے لگے تو واشنگٹن میں سرکاری موقف تیزی سے بدل سکتے ہیں۔ تب بہترین تائیدی گروپوں کو تک سرگرم کرنا کام نہ آئے گا۔ مودی حکومت کیلئے کہیں زیادہ اہم لڑکھڑاتی ’تپائی‘ کو دوبارہ متوازن کرنا ہے۔
اس کے برعکس آسیان ممالک میں زیادہ تر کو ہندوستان کی معاشی پیش رفت کے تعلق سے فکر ہے، اور کسی حد تک اپنی سیاست میں بیجنگ کے اثر کو توازن میں رکھنے نئی دہلی کی اہلیت اور اس کی آمادگی پر نظر ہے۔ موجودہ معاشی انحطاط کو ملحوظ رکھے بغیر ہندوستان کا علاقائی جامع معاشی شراکت داری (RCEP) سے دور رہنے کے فیصلہ کا مطلب مشرقی ایشیا کے ساتھ معاشی مشغولیت مزید مشکل ہوجائے گی۔ جیسا کہ میں نے کہیں اور لکھا ہے، ’’یہ توقع رکھنا تکبرانہ ہے کہ ممالک اور کمپنیاں ہندوستان میں معاشی بڑھوتری نہ دیکھنے پر بھی اس کے سیاسی مفادات کے تئیں ہمدردی رکھیں گے۔ خالص معاشی ترقی پر ہی ہندوستان کی خارجہ پالیسی کو ہلکی، مختصر سست روی کو قابو میں بتانے کا موقع ملے گا۔ تاہم، اگر ہم گہرے و طویل معاشی انحطاط سے دوچار ہوجائیں تو ہمیں بین الاقوامی تعلقات میں مشکل وقت کا سامنا کرنے کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
طرزعمل کو قابو میں رکھیں
اگر معاشی پہلو کمزورتر ہوجائے تو ملائیشیا جیسے ممالک کو مختلف پلیٹ فارمس پر کشمیر اور این آر سی کے مسائل اٹھانا کچھ خاص مہنگا نہیں پڑے گا۔ وہ فراخدلانہ جمہوری خوبی کا مجموعہ نہیں ہیں، اور انھیں ایسا ہونے کی ضرورت بھی نہیں۔ انھیں بس اقتدار درکار ہے کہ ہندوستان کیلئے حالات مشکل بنائیں اور اس کو استعمال کرنے کیلئے تیار رہیں۔
جہاں تک مشرق وسطیٰ کا تعلق ہے، وزیراعظم مودی کے سعودی عرب کے ولیعہد محمد بن سلمان اور ابوظہبی کے شیخ محمد بن زاید کے ساتھ شخصی روابط نے ہندوستان کو تاحال عرب مملکتوں کے ساتھ رشتے استوار کرنے میں مدد کی ہے۔ یہ رجحان جاری رہنے کا امکان ہے چاہے اُن ملکوں میں رائے عامہ ہندوستان کے تئیں میں کچھ حد تک تبدیلی کیوں نہ آئے۔ یہ تمام حالات مل کر انڈین ڈپلومیسی پر دباؤ ڈالتے ہیں کہ اپنی سرگرمی میں مزید وقت لگائیں، وسائل بروئے کار لائیں اور سیاسی سرمایہ بھی مشغول کرتے ہوئے دیسی پالیسیوں کا دفاع کیا جائے۔ منفی شہ سرخیاں بیرونی میڈیا میں باقاعدہ اساس پر ظاہر ہونا شروع ہوچکی ہیں۔ جیسے ہی یہ رجحان ٹھوس شکل اختیار کرلے گا، بیرونی سرمایے ہندوستان کے مفادات کیلئے کم فائدہ مند بن جائیں گے۔ اسی وجہ سے لڑکھڑاتی ’تپائی‘ کو دوبارہ مستحکم کرنا ضروری ہے۔