l غریب پسماندہ ہندوؤں کو ہوگا سب سے زیادہ نقصان
l مہاتماگاندھی کا قاتل گوڈسے بھی سی اے اے کا حامی تھا !
l شاہین باغ کی ا حتجاجی خواتین کے عزم سے امیت شاہ پر ہیبت طاری
نئی دہلی ۔ 3 فبروری ۔(سیاست ڈاٹ کام) نریندر مودی حکومت ملک میں کسی بھی طرح سی اے اے ،این آر سی اور این پی آر پر عمل کروانے کی خواہاں ہے ۔ وزیرداخلہ امیت شاہ جنھیں موٹاپے کا عارضہ لاحق ہے بار بار یہی کہہ رہے ہیں کہ حکومت سی اے اے پر عمل آوری سے ایک انچ بھی پیچھے نہیں ہٹے گی ۔ امیت شاہ جس پرزور انداز میں یہ دعویٰ کررہے ہیں اُنھیں اُسی انداز میں ہندوستانی عوام کا جواب بھی مل رہا ہے ۔ خاص طورپر شاہین باغ کی احتجاجی خواتین نے وزیراعظم نریندر مودی اور امیت شاہ کو یہ بتادیا ہے کہ تم ایک انچ پیچھے ہٹو یا آگے بڑھو ہم ہر اُس ’’قدم ‘‘ کو روکدیں گے جو ملک کی گنگا جمنی تہذیب ، فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، ہندوستانی دستور جمہوریت اور ہندوستانیت کو نقصان پہنچانے اور اپنے حقیر سیاسی مقاصد کی تکمیل کیلئے اُٹھایا جائے گا ۔ سی اے اے بھی ایسا ہی قدم ہے جو ہندوستان کی تباہی کیلئے اُٹھایا گیا ہے اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسے بابائے قوم مہاتما گاندھی کی خواہش سے جوڑا جارہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کا پہلا دہشت گرد اور مہاتما گاندھی کا قاتل ناتھو رام گوڈسے شائد سی اے اے جیسے سیاہ قانون کا بھی حامی تھا ۔ سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے ذریعہ ہندوستانی شہریوں اور انکے والدین کی تاریخ پیدائش اور صداقت نامہ پیدائش کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا خود وزیراعظم نریندر مودی اپنے والدین کے برتھ سرٹیفکیٹس پیش کرسکیں گے ۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کے پاس خود ان کا اپنا برتھ سرٹیفکیٹ نہیں ہوگا کیونکہ صداقت نامہ پیدائش کی اجرائی کا آغاز 1969 ء کے بعد سے اس وقت ہوا جب پارلیمنٹ میں پیدائش و اموات سے متعلق ایک قانون ( برتھ اینڈ ڈیٹتھس ایکٹ 1969ء ) کی تدوین عمل میں لائی اور یہ قانون ملک کی اکثر ریاستوں میں نافذ کیاگیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملک کی تمام ریاستوں میں اسے نافذ نہیں کیا گیا ۔ بہرحال سی اے اے ، این آر سی ؍ این پی آر کے پیچھے جو سازش اقتدار کے بھوکوں اور ہندوتوا کے کٹر حامیوں نے رچی ہے اسے موجودہ حالات میں سمجھنا بہت ضروری ہے بقول جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق صدر کنہیا کمار حکومت این آر سی اور سی اے اے پر عوام سے اپنی عادت کے مطابق جھوٹ بول رہی ہے ۔ حکومت کہتی ہے کہ سی اے اے سے ہم ’’باپ ‘‘ممالک ( بنگلہ دیش افغانستان اور پاکستان) سے آنے والے حالات اور حکومتوں کے ستائے ہوئے ہندوؤں ، سکھوں ، بدھسٹوں ، عیسائیوں اور پارسیوں کو ہندوستانی شہریت دیں گے ، لیکن مودی حکومت کی سازش کو سمجھنے کیلئے آسام میں این آر سی کا جو عمل ہوا ہے اسے سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ آسام میں این آر سی فہرست جاری کی گئی جس میں تقریباً 19.5 لاکھ لوگوں کے نام اس فہرست سے حذف کردیئے گئے لیکن ان میں 15 لاکھ غیرمسلم نکلے جس سے بی جے پی کے ہاتھ پاؤں پھول گئے کیونکہ اس کا حساب اُلٹا پڑگیا ۔ کنہیا کمار کے مطابق فسادات برپا کرکے اپنا سیاسی اُلو سیدھا کرنے والے اسی حساب سے سوچتے ہیں وہ سوچنے لگے کہ صرف آسام میں کثیرتعداد میں ہندو این آر سی سے باہر ہوئے تو پھر سارے ملک میں تو کروڑوں کی تعداد میں ہندوؤں کے نام حذف ہوجائیں گے تو اس صورت میں وزیراعظم مودی کی ’ہندو سمراٹ‘ کی جو شبیہ ہے وہ متاثر ہوجائے گی ۔ دوسری طرف بنگال میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں ایسے میں ہم ( بی جے پی ) انتخابات ہار جائیں گے، یہی سوچ کر یہ سازش کی گئی اور پارلیمنٹ میں سی اے اے کو بڑی عجلت سے منظور کیا گیا اور صدرجمہوریہ نے بھی اُس پر بنا کسی تاخیر کے دستخط کردی ۔ کنہیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ نوٹ بندی کے وقت بھی مودی حکومت نے جھوٹ کا سہارا لیا تھا اور ہندوستانیوں کو یہ کہکر بیوقوف بنایا تھا کہ نوٹ بندی سے بلیک منی بیرونی ممالک سے واپس آئے گی جس سے ہرشہری کے اکاؤنٹ میں 15 پندرہ لاکھ روپئے آئیں گے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ ملک کے ممتاز صحافی این رام نے واضح طورپر کہا ہے کہ این آر سی سے نہ صرف ملک کے موجودہ معاشی بحران سے عوام کی توجہہ ہٹانے کی ایک کوشش ہے بلکہ یہ بی جے پی کے ’’ہندوراشٹرا پراجکٹ ‘‘ کا ایک حصہ ہے یعنی بی جے پی ہندوراشٹر سے متعلق اپنے دیرینہ منصوبوں کی تکمیل چاہتی ہے ۔ ایسی صورتحال میں سی اے اے کو معمولی سمجھ کر نظرانداز کرنا ایک سنگین غلطی ہوگی ۔ واضح رہے کہ سی اے اے سے مودی حکومت ایک تیر سے دو شکار کرنے کی خواہاں ہیں ایک تو مسلمانوں کے ساتھ مذہبی بنیاد پر امتیاز برت کر اور دوسرے این آر سی سے غریب ہندوؤں کے نام حذف کرکے اپنے برہمن واد ایجنڈہ کی تکمیل کرے گی ۔ (جاری ہے )