سی اے اے کی منظوری کے 79 دن، 69 ہلاک

,

   

کئی ریاستوں میں این پی آر سروے کرانے سے انکار، شہریت قانون کو روبہ عمل لانے کا اعلامیہ ہنوز جاری نہیں کیا گیا

نئی دہلی 28 فروری (سیاست ڈاٹ کام) شہریت ترمیمی قانون کی پارلیمنٹ میں 11 ڈسمبر کو منظوری کے 79 دن ہوئے ہیں اور مختلف واقعات میں زائداز 69 افراد ہلاک ہوئے۔ اموات کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن وزارت داخلی اُمور کی جانب سے شہریت ترمیمی قانون کو نافذ العمل کرنے کا اعلامیہ ہنوز جاری نہیں کیا گیا۔ پارلیمنٹ میں قانون کی منظوری کے بعد سے خاص کر گزشتہ دو ماہ سے اِس قانون کے خلاف احتجاج اور فسادات کے دوران کئی اموات ہوئی ہیں۔ سی اے اے مذہب کی بنیاد پر شہریت دینے والا قانون ہے۔ اِس میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔ پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم تارکین وطن کو جن کے پاس کسی قسم کے دستاویزات نہ ہوں تو بھی انھیں ہندوستانی شہریت دی جائے گی۔ وزارت داخلی اُمور کے سینئر عہدیداروں نے زور دے کر کہاکہ یہ قوانین ہنوز تیاری کے مرحلہ میں ہیں۔ قانون کے مختلف ادوار کے بارے میں قطعی کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ قانون کے دفعات میں جو چیزیں شامل کی جائیں گی وہ امکان ہے کہ قطعی نہیں ہوں گی اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ اِس کے لئے اعلامیہ کب جاری کیا جائے گا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وزارت داخلی اُمور کے سینئر عہدیدار نے کہاکہ اِن کی وزارت نے سی اے اے کے بارے میں قطعی تیاری نہیں کی ہے۔ جب اِس قانون کو قطعیت دی جائے گی اور اِسے سرکاری گزٹ میں شائع کیا جائے گا تو اِسے پارلیمنٹ میں پیش کیا جائے گا۔ آئندہ پارلیمانی سیشن کے پہلے دن یا سیشن کے دوران اندرون 15 یوم سرکاری گزٹ پیش کیا جائے گا۔ پارلیمنٹری ورک پر تیار کردہ کتابچہ کے مطابق اِس قانون میں جو قواعد و اُصول، شرائط و ضوابط اور بائی لاز کئے گئے ہیں انھیں 6 ماہ کی مدت کے اندر حتمی شکل دی جائے گی۔ اِس کے بعد سے ہی اِس قانون کا کارآمد ڈھانچہ سامنے آئے گا۔ کتابچہ میں بتایا گیا ہے کہ اگر وزارت اور محکمہ جات 6 ماہ کی مقررہ مدت کے اندر اِس قانون کو حتمی شکل دینے سے قاصر ہوں تو اِس میں مزید توسیع دی جاسکتی ہے اور یہ توسیع ایک وقت میں صرف تین ماہ کے لئے دی جاسکتی ہے۔ اِس کے بعد وزارت کی منظوری کے لئے درخواست داخل کی جانی چاہئے۔ سی اے اے کے نافذ العمل ہونے کے بعد آسام میں 6 افراد ہلاک ہوئے، اترپردیش میں 19 ، کرناٹک میں 2 اور دہلی میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران اب تک 42 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اترپردیش، کیرالا، ٹاملناڈو، مہاراشٹرا، بہار، مغربی بنگال، مدھیہ پردیش، راجستھان، گجرات، تلنگانہ اور کرناٹک کے کئی مقامات پر بھی سی اے اے کیخلاف شدید احتجاجی مظاہرے دیکھے گئے ہیں اور اِن احتجاجوں کو این آر سی اور این پی آر کے تناظر میں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کی حکمرانی والی ریاستوں نے مجوزہ این پی آر سروے کی مخالفت کی ہے۔ یہ سروے یکم اپریل سے شروع کیا جانا ہے۔ اِس کے ساتھ مردم شماری کا عمل بھی ہوگا۔ سٹیزن شپ قوانین 2003 کے مطابق این آر سی کی تکمیل کے لئے این پی آر پہلا قدم ہے۔ لیکن این پی آر کو ابھی قطعیت نہیں دی گئی اور نہ ہی اِس کا اعلامیہ جاری کیا گیا لیکن گزشتہ سال 30 لاکھ افراد کی تفصیلات اکٹھا کرتے ہوئے اِس میں 21 پیرامیٹرس شامل کئے گئے ہیں۔ اِن میں والد / والدہ کے مقام پیدائش، رہائش کا آخری مقام کی تفصیلات بھی شامل کی گئی ہیں۔ اپوزیشن پارٹیوں کی جانب سے شدید اعتراضات کے درمیان حکومت نے 7 فروری کو لوک سبھا کو بتایا تھا کہ حکومت نے اب تک نیشنل رجسٹر آف انڈین سٹیزنس کو قومی سطح پر تیار کرنے کا کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے۔