جمہوری حقوق پامال کرنے والوں کے اوسان خطا ، فلیش پروٹسٹ سے نفاذ قانون کی ایجنسیاں پریشان
حیدرآباد ۔ 17 ۔ جنوری : ( سیاست نیوز ) : ہمارے شہر حیدرآباد فرخندہ بنیاد میں حالیہ عرصہ کے دوران اور خاص طور پر شہریت ترمیمی قانون این آر سی اور این آر پی کے خلاف جو احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں ان میں خواتین کی کثیر تعداد دیکھی جارہی ہے ۔ بے شمار ایسی خواتین ہیں جن کے گودوں اور ہاتھوں میں شیر خوار بچے ہیں کچھ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ تھامے ہوئے ہیں اور ان کے ہاتھوں میں قومی ترنگا بھی بڑی آن و شان کے ساتھ لہرا رہا ہے ۔ حیدرآباد میں اس تبدیلی کو بطور خاص نوٹ کیا گیا اب تک احتجاجی خواتین عیدگاہ اجالے شاہؒ کے اطراف و اکناف ہی دیکھی جاتی تھیں ۔ تاہم اب خواتین اور طالبات جوق در جوق اپنے جمہوری حقوق پر مرکزی حکومت کے حملوں کا منہ توڑ جواب دینے لگی ہے ۔ ہم نے سراپا احتجاج بنی کئی خواتین سے بات کی جن میں سے اکثر کا یہی کہنا تھا کہ اب انہیں پولیس سے کوئی ڈر نہیں لگتا اور نہ ہی پولیس طاقت کے بل پر انہیں ان کے جمہوری حقوق سے محروم کرسکتی ہے ۔ ان خواتین کو اب پولیس کی جانب سے کوئی مقدمہ درج کیے جانے کا بھی خوف نہیں ہے ۔ کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ سچائی اور حق کا ساتھ دینے والوں کو ہمیشہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا حیدرآباد کی یونیورسٹیز اور تعلیمی اداروں کے طلباء اور حب الوطنی کے جذبہ سے سرشار نوجوان شہر کے کونے کونے میں فلیش پروٹسٹ یا احتجاج کررہے ہیں ۔ یہ نوجوان اچانک شہر کے کسی مقام پر نمودار ہوتے ہیں ان کے ہاتھوں میں ایسے پلے کارڈس ہوتے ہیں جس پر سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے ساتھ ساتھ مودی حکومت کے خلاف نعرے درج ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان کے ہاتھوں میں قومی پرچم بھی ہوتا ہے تاہم وہ نعرہ بازی سے گریز کرتے ہیں اور پولیس کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ وہاں سے کسی اور مقام پر احتجاج کے لیے روانہ ہوجاتے ہیں ۔ پولیس اس طرح کے اچانک احتجاجی مظاہروں سے تنگ آچکی ہے ۔ سوشیل میڈیا مانٹرنگ ٹیم فلیش پروٹسٹ پر گہری نظر رکھے ہوئے ہے ۔ اس سلسلہ میں ہم نے شہر کے ایک سماجی جہد کار اور مہر آرگنائزیشن کے سکریٹری عفان قادری سے بات کی ۔ ان کا کہنا تھا کہ آج شہر میں جو فلیش پروٹسٹس ہورہے ہیں اس میں حصہ لینے والے نوجوانوں نے ان مجاہدین آزادی سے عزم و حوصلہ حاصل کیا جو اسی انداز میں ظالم انگریزوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے انہیں سبق سکھایا کرتے تھے ۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ احتجاجی نوجوان کوئی نعرہ بازی نہیں کرتے بلکہ اپنے پلے کارڈس اور ہاتھوں میں لہراتے قومی پرچموں کے ذریعہ ملک میں سیاہ قوانین کے ذریعہ بے چینی پھیلانے والوں کو بھی سبق دیتے ہیں ۔ آپ کو بتادیں کہ شہرکے کونے کونے میں ہر دن شام 7 تا رات 11 بجے پولیس کافی پریشان ہے اور پولیس کو ان مظاہروں میں خواتین و لڑکیوں کے حصہ لینے پر بہت تشویش ہے ۔ شہر کی ایک ممتاز سماجی جہد کار رفیعہ نوشین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ سی اے اے کا مسئلہ صرف مسلمانوں کا نہیں بلکہ دلت ، قبائلی بھی اس سے متاثر ہوں گے اور جب بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو خواتین اور بچے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ شاہین باغ دہلی میں بھی جو احتجاجی مظاہرہ جاری ہے وہ خواتین نے ہی شروع کیا ہے اور شاہین باغ کے احتجاجی مظاہرہ کی خوشبو اور مہک سے سارا ہندوستان معطر ہوگیا ہے ۔ نتیجہ میں ملک کے ہر حصہ میں خواتین احتجاج کرنے لگی ہیں ۔ پہلے یہ کہا جاتا تھا کہ مسلم خواتین گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوتی ہیں ۔ انہیں ان کے حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے لیکن مسلم خواتین نے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے مسئلہ پر گھروں سے نکل کر یہ بتادیا ہے کہ وہ اپنے باپ ، بھائیوں ، شوہروں اور بیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنے جمہوری حقوق کو پامال کرنے اور انہیں چھیننے کی اجازت کسی کو نہیں دیں گے چاہے وہ مودی اور امیت شاہ ہی کیوں نہ ہوں ہماری خواتین نے احتجاجی مظاہروں میں شامل ہوتے ہوئے مودی حکومت کو یہ پیام بھی دیا ہے کہ وہ جمہوریت کی پامالی ، شہریوں کی حق تلفی کو کبھی برداشت نہیں کریں گی اور ظالموں کے خلاف آواز اٹھاکر اپنے جمہوری و دستوری حقوق کا تحفظ کریں گی ۔۔