18 سال کی عمر والی لڑکی کے نکاح میں ابھی رکاوٹ نہیں، علمائے نرمل کا مشورہ
نرمل ۔لڑکیوں کی شادی کی عمر کو لے کر والدین وسرپرست حضرات الجھنوں کا شکار ہیں، چنانچہ علمائے نرمل مولانا عبدالعلیم قاسمی نائب قاضی نرمل نے اس حوالے سے والدین کو پریشان نہ ہونے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ18 سال کی عمر والی لڑکی کی شادی میں ابھی کوئی رکاوٹ نہیں،21 سال کو نکاح کی عمر لازمی قرار دینے والا نیا قانونی مسودہ جسےThe Prohibition of Child Marriage (Amendment) Bill, 2021 کا نام دیا گیا ہے، ابھی نافذ نہیں ہوا ہے، یہ بل 21 دسمبر 2021 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا تھا، لوک سبھا میں اپوزیشن کے احتجاج کی بنا پر منظوری نہیں مل سکی اور اسے اب مزید جانچ کے لئے لوک سبھا کی جانب سے ’پارلیمنٹری پینل ‘کے سپرد کیا گیا ہے جہاں سے یہ دوبارہ لوک سبھا آئے گا اور وہاں سے راجیہ سبھا پھر صدر جمہوریہ کی دستخط کے بعد نافذ العمل ہوگا، اصل قانون 2006 میں نافذ ہوا تھا جس میں کْل اکیس شقیں تھیں، انہی میں سے کچھ شقوں میں تبدیلی کرکے اسے پارلیمنٹ میں پیش کیا گیا ہے، 1978 میں حکومت نے لڑکیوں کی شادی کی عمر پندرہ سے اٹھارہ اور لڑکوں کی شادی کی عمر اٹھارہ سے اکیس کی تھی، ابھی صرف لڑکیوں کی قابل نکاح عمر میں اضافہ کیا گیا ہے، یعنی لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کی قابل نکاح عمر بالفاظِ دیگر بلوغت کی عمر اکیس برس طئے کی گئی ہے.. اہم بات یہ کہ یہ قانون صدر جمہوریہ سے منظوری ملنے کی تاریخ سے دو سال بعد نافذ ہوگا جسے گریس پریڈ( Grace Period) کہا جاتا ہے، یعنی یہ معاملہ ایسا ہے جو اچانک تبدیل نہیں کیا جاسکتا، مثلا کچھ رشتے طئے ہوئے ہوتے ہیں کچھ کی شادی کی تاریخ اور اس سے متعلقہ معاملات فائنل ہوچکے ہوتے ہیں وغیرہ ، اس لئے اس میں دو سال کی مدت کی سہولت دی جائے گی بعد ازاں یہ قانون لاگو ہوگا، یہ بات اس ترمیم شدہ ایکٹ کی شق نمبر ایک کی ذیلی شق نمبر دو میں کہی گئی ہے..مثلا اگر جنوری 2022 کی پندرہ تاریخ کو صدر جمہوریہ کی دستخط ثبت ہوجائے تب بھی اس قانون کا نفاذ پندرہ جنوری 2024 سے ہوگا، یعنی ان دو برسوں میں اگر اٹھارہ سے اکیس سال کے درمیان والی لڑکی کا نکاح کروانا چاہیں تو بلا جھجک کروا سکتے ہیں، واضح رہے یہ یہ دو سال صدر جمہوریہ سے منظوری ملنے کی تاریخ سے شروع ہوں گے اور ابھی یہ بل پینل کے پاس ہی ہے، پرانے قانون میں قانوناً نابالغ سے شادی کرنے یا شادی کروانے یا ایسی شادیوں کو فروغ دینے والے افراد یا تنظیموں کو زیادہ سے زیادہ دو سال کی سزا اور ایک لاکھ کا جرمانہ لگ سکتا ہے، نئے قانون میں اسی کو برقرار رکھا گیا ہے۔