اسد علی ایڈوکیٹ
نکاح ایک عربی لفظ ہے جبکہ اس کا لفظی مطلب جنسی ملاپ ہے قانونی طور پر اس کا مطلب شادی ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نکاح میری سنت ہے اور جو لوگ اس طرز زندگی کو اختیار نہیں کرتے ہیں وہ میرے پیرو نہیں۔ مرد اور عورت دونوں کی جسمانی و دیگر ضروریات کی تکمیل شادی کے ذریعہ ہوتی ہے جس سے زن و شوہر ایک دوسرے کے ہمدرد و غمگسار بن جاتے ہیں جس سے دونوں کو ایک بڑا سہارا مل جاتا ہے اور بعد ازاں بچوں کی پیدائش ان کے بڑھاپے کا سہارا ہوتی ہے اگر اولاد نیک ہوتو ماں باپ کے لئے ایک بڑی کامیابی ہوتی ہے جبکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہوتی ہے‘‘۔
دور حاضر میں عام طور پر دیکھا جارہا ہے کہ شوہر یا بعض سسرال والے لڑکی کی پہلی ڈیلیوری اس کے ماں باپ کی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور لڑکی کو اس کے والدین کے پاس بھیج دیتے ہیں خواہ لڑکی کے والدین کی استطاعت ہو یا نہ ہو مجبوراً لڑکی کے ماں باپ کو کسی نہ کسی طرح یہ اخراجات برداشت کرنے پڑتے ہیں بعض اوقات لڑکی والے اس خرچ کی تکمیل کے لئے اپنے زیورات اور اثاثے تک فروخت کردیتے ہیں۔ شریعت کے مطابق لڑکی کی زچگی و دیگر اخراجات کی ذمہ داری شوہر پر عائد ہوتی ہے لیکن موجودہ نفسانفسی کے دور میں عام طور پر شوہر اور بعض سسرال والے لڑکی کے والدین کے حالات کو نظرانداز کرتے ہوئے انہیں مجبور کردیتے ہیں کہ لڑکی کی زندگی کے لئے کسی نہ کسی طرح ان اخراجات کی پبجائی کرے گرانی کے موجودہ دور میں انسان کے لئے روزگار ایک مسئلہ بناہوا ہے ایسے میں لڑکی والوں پر اس قسم کا مالی بوجھ عائد کرنا سراسر ظلم اور ناانصافی ہے اور شوہر کو ایک دن خدا کے سامنے جوابدہ ہونا پڑے گالہذا وقت کا تقاضہ ہیکہ فوری طور پر اس غلط رویہ کی اصلاح کی جائے اور دوسرے کی مصیبت اور تکلیف کو اپنی مصیبت اور تکلیف سمجھا جائے۔
دوسری اہم بات یہ ہیکہ شادی کے بعد لڑکی کو اگر لڑکی پیدا ہوتو اس صورت میں بعض سسرال والے یا بعض شوہر دونوں اس سے انتہائی بے رخی اور سختی کا سلوک کرتے ہیں اگر لڑکا تولد ہو جائے تو اس صورت میں لڑکی کی خاطر تواضع ہوتی ہے جبکہ لڑکی کی پیدائش میں ماں کا کوئی قصور نہیں ہوتا ہے بلکہ دوسرے الفاظ میں یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہے۔ لڑکے کی پیدائش پر مٹھائی اور دیگر لوازمات کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پارٹیاں بھی ہوتی ہے لیکن لڑکی کی پیدائش پر عموماً دیکھا جاتا ہیکہ گھر ایک ماتم کدہ بن جاتا ہے ان حالات میں نہ صرف شوہر بلکہ اس کے والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ لڑکی کے ساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرے اور اسے کسی بھی قسم کی تکلیف پہچانے سے گریز کرے ورنہ یوم حشر نہ صرف شوہر بلکہ تمام متعلقین کو اللہ رب العزت کے سامنے شرمندہ اور جواب دہ ہونا پڑے گا حالات کا تقاضہ ہیکہ معاشرہ میں پیدا ہوئی ان غیر اسلامی رسومات اور سرگرمیوں کا خاتمہ کیا جائے اور اپنا محاسبہ کرتے ہوئے انتہائی احتیاط برتی جائے۔
تیسری اہم بات یہ ہے کہ بعض ایسے واقعات بھی عام طور پر پیش آرہے ہیں جس میں اگر لڑکی کو لڑکی تولد ہو جائے تو اس صورت میں شوہر اسے منحوس قرار دیتا ہے اور اگر دوبارہ لڑکی پیدا ہو جائے تو اس صورت میں لڑکی کو انتہائی بے دردی کے ساتھ ان کے گھر بھیج دیا جاتا ہے۔ قانون ان تمام برائیوں کا سدباب نہیں کرسکتا ہے اور ان برائیوں کو صرف متعلقین ہی شریعت کے مطابق اس پر عمل کرتے ہوئے دور کرسکتے ہیں نحوست وغیرہ جیسی باتوں کا اسلام میں کوئی وجود نہیں ہے اور ہر چیز اللہ کی جانب سے مقدر اور مقرر ہے۔ اگر ہم اپنی طرف سے یہ بدعت پیدا کرے تو اس کی سخت ترین سزاء بھی آخرت میں ملے گی۔ مفت قانونی مشورہ کے لئے اس نمبر 9959672740 پر ربط پیدا کیا جاسکتا ہے۔