شاد ی کیلئے لڑکیوں کی حد عمر اور حکومت کی من مانی

   

برندا کرت

مودی حکومت کو پارلیمنٹ میں واضح اکثریت حاصل ہے اور اسی اکثریت کی بناء پر وہ من مانے بلز پیش کرتی جارہی ہے۔ ایسا ہی ایک بل اب پارلیمنٹ میں پیش کیا جانے والا ہے جس کے تحت لڑکی کی شادی کی حد عمر کو 18 سال سے بڑھاکر 21 سال کردیا جائے گا چونکہ پارلیمنٹ میں مودی حکومت کو اکثریت حاصل ہے، اس لئے پورا پورا امکان ہے کہ بناء کسی رکاوٹ کے یہ بل قانون میں تبدیل ہوجائے گا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کو کئی ایک سنگین مسائل درپیش ہیں جن پر غور کیا جانا، انہیں حل کرنا ضروری ہے، لیکن مودی حکومت ان مسائل کو پس پشت ڈال کر عوام کو غیرضروری مسائل میں الجھا رہی ہے۔ حکومت نے کہا کہ وہ لڑکیوں کی شادی کی عمر سے متعلق تجویز کو جسے کابینہ نے منظوری دی، پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش کرے گی۔ اسے اس طرح کے اقدامات کرنے کے بجائے اس بل کو متعلقہ اسٹانڈنگ کمیٹی سے رجوع کرنا بہتر ہوتا۔ جہاں تک لڑکیوں کی شادی کی عمر کا سوال ہے، ایک لڑکی کو 18 سال کی عمر میں سرکاری طور پر بالغ قرار دیا جاتا ہے اور ایک بالغ شہری پر تمام قوانین بشمول فوجداری قوانین کا اطلاق ہوگا۔ 18 سال کی عمر میں ایک لڑکی اپنے تمام اقدامات کیلئے ذمہ دار ہوتی ہے اور پھر 18 تا 21 سال کی عمر کے درمیان کسی خاتون کو بالغوں کی جیل میں بھیجا بھی جاسکتا ہے تاکہ وہ اپنے جرائم کی سزا کاٹ سکے۔ ان تمام باتوں سے ایک نکتہ پیدا ہوتا ہے کہ 18 سال کی عمر ہی شادی کیلئے بہترین عمر ہوتی ہے لیکن مجوزہ بل کے مطابق 18 سال کی عمر میں کوئی لڑکی شادی نہیں کرسکتی کیونکہ شادی کیلئے یہ عمر بہت ہی کم ہے۔ ہماری حکومت خواتین کو بااختیار بنانے کی بات کرتی ہے، لیکن مجوزہ بل کا مقصد خواتین کو بے اختیار بنانا ہے۔ یہ دراصل خواتین کے اختیارات کو کم کرنا ہے۔ ایک بالغ لڑکی کو اس کے حق انتخاب سے روکنا کیا جرم نہیں ہے؟ اس بارے میں حکومت کو سوچنا چاہئے۔ حکومت کا مجوزہ بل ایک طرح سے بالغ لڑکیوں کو بچائے رکھنا ہے۔ جہاں تک بلوغت کا سوال ہے، وہ ناقابل تقسیم ہے لیکن یہ بات تو انتہائی غلط ہے، ایک بالغ لڑکی کو شادی کا فیصلہ کرنے سے روکا جائے۔ حکومت کے اس اقدام سے نوجوان لڑکیوں کو ان کی اپنی پسند سے کی جانے والی شادیوں سے روکنا ہے اور یہ بل اس طرح کی شادیوں کو غیرقانونی قرار دے گا کیونکہ اکثر نوجوان جوڑوں میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ وہ ذات پات کو بالائے طاق رکھ کر شادی کرلیتے ہیں۔ یہ بل ایک طرح سے شخصی انتخاب اور وہ بھی ایک بالغ لڑکی کی جانب سے کئے جانے والے شخصی انتخاب کے معاملے میں خود مختاری کے اصول کے خلاف ہے۔ عدالتوں نے بھی اپنے فیصلوں میں بالغ لڑکی کی پسند کو قانونی طور پر جائز قرار دیا ہے اور قانون کی نظر میں 18 سال کی عمر والی لڑکیاں بالغ مانی جاتی ہیں۔ ویسے بھی آج کے ہندوستان میں خواتین حالات میں تبدیلیاں لا رہی ہیں اور فیصلہ سازی میں ان کا اہم کردار شامل ہورہا ہے۔ یہاں تک کہ یہ لڑکیاں جلد سے جلد شادی اور خاص طور پر بچپن کی شادیوں کے خلاف آواز اٹھا رہی ہیں۔ وہ مردوں کی اجارہ داری کے حامل معاشرے کے خلاف ہے۔ ایسے کئی وجوہات ہیں جس کے نتیجہ میں ہندوستان میں شادی کی عمر کو بڑھا کر کبھی 22.1 سال (MOSPI-2019)کردیا گیا تھا۔ ان حالات میں جبکہ لڑکیاں خود شادی پہلے یا بعد میں کرنے کا جو فیصلہ لے رہی ہیں، اسے روکنے کیلئے اقدامات کی کیا ضرورت ہے۔ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ کوئی لڑکی 21 سال کے بعد ہی شادی کرے جبکہ تمام قوانین کا اطلاق 18 سال کی عمر کے بعد ہوتا ہے اور سزاؤں کا تعین بھی 18 سال کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی بڑی عمر میں شادی کرنا چاہے تو آپ انہیںنہیں روک سکتے۔ نوجوان خواتین کیلئے بہترین ماحول یا فضاء سازگار بنانے کیلئے جو اہم پہلو ہیں ان میں طمانیت روزگار، روزگار کے مواقع اور تعلیم تک ان کی رسائی ہے۔ حکومت روزگار اور تعلیم تک لڑکیوں کی رسائی کو یقینی بنانے کے بجائے 18 سے 21 سال کے درمیان شادیوں کو مجرمانہ فعل قرار دیا جارہا ہے اور اس میں کوئی معقولیت نہیں کیونکہ ان سیاہ قوانین کے پیچھے دراصل بی جے پی کے زیرقیادت حکومتوں کا آبادی پر کنٹرول کرنے کا ارادہ ہے اور یہ لوگ یہ کام ایسے وقت کررہے ہیں جبکہ خواتین میں بالیدگی کی شرح پہلے ہی سے گرتی جارہی ہے۔ بعض لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ شادی کی عمر میں بڑھانے میں کیا قباحت ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ حقیقت کیا ہے؟ ہندوستان میں آج بھی کمسنی کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ ملک کے مختلف مقامات پر 18 سال سے کم عمر لڑکیوں کی شادیاں کردی جاتی ہیں۔ حکومت نے کبھی اس طرح کی شادیوں کے اسباب جاننے کی کوشش نہیں کی۔ نیشنل فیملی ہیلتھ سروے ہمیں بتاتا ہے کہ اگرچہ کمسنی کی شادیوں میں پچھلے پانچ برسوں کے دوران 27% سے کم ہوکر 23% ہوگئی اور خاص طور پر شہری علاقوں میں کمسنی کی شادیوں کے رجحان میں بہت زیادہ اضافہ ہوا جبکہ دیہی ہندوستان میں یہ حال رہا کہ 20 تا 24 سال گروپ کی ہر چار خواتین میں سے ایک خاتون کی شادی اس وقت ہوئی جبکہ اس کی عمر 18 سال سے بھی کم تھی۔ وجہ سب جانتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ کورونا وائرس کی وباء نے بھی اقتصادی دباؤ اور اس کے تباہ کن سماجی اثرات پر روشنی ڈالی ہے جس میں بچے بہت زیادہ متاثر ہوئے۔ پچھلے سال مارچ تا مئی لاک ڈاؤن کے مہینوں کے دوران مرکزی وزارت بہبود خواتین و اطفال کی ایک چائیلڈ ہیلپ لائن کو کمسنی کی شادیوں سے متعلق 5,200 کالس موصول ہوئے جس کی بنیاد پر ان شادیوں کو روکا گیا۔ اکثر غریب خاندانوں کی بیٹیوں کو 18 سال کی عمر سے پہلے ہی شادی کرکے ان کے سسرال پہنچا دیا جاتا ہے۔ 18 سال کی عمر سے قبل شادی کو غربت سے نمٹنے اور جہیز کے مطالبات سے بچنے کے حل کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔ غریب ماں باپ اپنی بیٹیوں کی شادیاں 18 سال سے قبل جنسی حملے کے خوف سے بھی کردیتے ہیں۔ آج بھی جیسا کہ میں نے کہا ہے کہ ہمارے ملک میں بیٹیوں کی کمسنی میں شادی کرنے کا رواج عام ہے۔
لڑکیوں کو مردوں کی اجارہ داری والے اس معاشرے میں پرایا دھن سمجھا جاتا ہے اور والدین جلد سے جلد اپنی لڑکی کا ہاتھ اس کے شوہر کے ہاتھ میں یہ سوچ کر دیتے ہیں کہ اسے اس کی عزت بھی محفوظ رہے گی اور غربت سے بھی تحفظ حاصل ہوجائے گا۔ موجودہ حکمراں طبقہ اس طرح کی تہذیبی روایات سے خوش ہیں، اسے اس کی کوئی فکر نہیں۔ ایسی ریاستیں جہاں تعلیم تک لڑکیوں کی زیادہ سے زیادہ رسائی کو یقینی بنایا گیا ہے، وہاں کمسنی کی شادیوں کے چیلنج کا کامیابی سے مقابلہ کیا گیا۔ مثال کے طور پر ریاست کیرلا اس سلسلے میں آگے دکھائی دیتی ہے۔ آپ کو بتا دوں کہ حکومت نے لڑکے لڑکیوں کی شادیوں سے متعلق قانونی عمر میں تبدیلی لائی تھی۔ تب لڑکیوں کی شادی کی عمر 15 سال اور لڑکوں کی شادی کی عمر 18 سال ہوا کرتی تھی لیکن حکومت نے لڑکیوں کی شادی کی حد عمر 15 سال سے بڑھاکر 18 سال کردی ہے اور شادی کیلئے لڑکوں کی حد عمر 18 سے بڑھاکر 21 سال کردی تھی اور یہ قوانین کا تمام مذاہب کے ماننے والے ہندوستانیوں پر اطلاق ہوتا رہا کیونکہ عدالتوں نے بار بار یہی کہا کہ کوئی بھی پرسنل لا ان قوانین کو پامال نہیں کرسکتا۔ اس قانون کو منظور ہوئے 43 برس ہوچکے ہیں لیکن ہم 18 سال سے کم عمر کی شادیوں کو روکنے میں ناکام رہے۔ حکومت نے اب شادی کی حد عمر 21 سال کرنے کا جو اعلان کیا ہے، وہ اس سے صرف آبادی کے ایک بڑے حصے بالخصوص غریب لڑکیوں کو نقصان ہوگا۔ حکومت لاکھ بہانے کرلے لیکن اس نے شادی کی حد عمر بڑھاکر کوئی اچھا کام نہیں کیا ہے۔