شاعرِ جرأت و بیباکی راحت اندوری

   

سید جلیل ازہر

اس کی یاد آئی ہے سانسوں ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
دنیائے اردو کے معتبر محترم اور مستند شاعر جناب راحت اندوری کے انتقال کی خبر نے سارے عالم میں اردو جاننے والے حضرات کے دلوں پر بجلی سی گرادی، راحت اندوری کی شاعری دور حاضر کی ایک ایسی بلند آہنگ فکر و انگیز اور ہمہ رنگ آواز تھی جس نے کروڑوں ذہنوں کو متاثر کیا۔ راحت اندوری نے نہ صرف لاتعداد و پہلوؤں کو اپنے حسن بیاں، قوت مشاہدہ اور تخیل کی گہرائیوں، رعنائیوں، رنگوں اور خوشبوؤں سے سجایا اور سنوارہ ہے بلکہ معاشرہ کی سفاکیوں، ہولناکیوں اور ناانصافیوں کو اُجاگر کیا ہے یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ وہ شاعری کی چلتی پھرتی یونیورسٹی تھے۔ اپنے منفرد لہجے اور انداز کے ذریعہ انہوں نے مشاعروں میں اپنی ایک منفرد چھاپ چھوڑی ہے ساری دنیا کا کوئی ایسا مقام جہاں اردو کے مشاعرہ منعقد ہوتے تھے ان کی شرکت یقینی ہوا کرتی تھی۔
ان کا منفرد لہجہ ان کی بے باک شاعری کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی اس انقلابی شاعر نے نسل نو کے دلوں میں اپنی ایک مخصوص جگہ بنالی۔ آج کے اسمارٹ فون میں نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنے فون گیلری میں راحت اندوری کے جذباتی اشعار کو محفوظ رکھتے ہوئے بار بار سن کر لطف اندوز ہوتے ہیں ایک مشاعرہ میں راحت اندوری نے نسل نو کو توجہ دلاتے ہوئے یوں کہا تھا کہ

انگلیاں یوں نہ سب پر اُٹھایا کرو
خرچ کرنے سے پہلے کمایا کرو
زندگی کیا ہے خود ہی سمجھ جاؤ گے
بارشوں میں پتنگیں اڑایا کرو
شام کے بعد تم جب سحر دیکھ لو
کچھ فقیروں کو کھانہ کھلایا کرو
راحت اندوری کی حاضر جوابی کے ساتھ ساتھ مشاعروں میں شائقین کا دل جیتنے کی بڑی صلاحیت موجود تھی یہ ایک مشاعرہ میں غزل سنانے سے پہلے ہی ایک واقعہ سناکر مشاعرہ کے ماحول کو یکسر تبدیل کردیا کرتے تھے انہوں نے بتایا تھا کہ ملک میں ایمرجنسی کے دوران لال قلعہ دہلی میں مشاعرہ ہو رہا تھا جس میں انہوں نے غزل سناتے ہوئے یہ کہہ دیا ’’حکومت چور ہے‘‘ مشاعرہ کے دوسرے دن قریبی پولیس اسٹیشن میں انہیں طلب کیا گیا اور پولیس کے ایک عہدیدار نے ان سے کہا کہ کل رات آپ نے مشاعرہ میں حکومت کو چور کہا ہے۔ اس پولیس عہدیدار کو راحت اندوری نے جواب دیا کہ ہاں میں نے کہا ہے لیکن یہ نہیں کہا کہ افغانستان کی حکومت چور ہے، امریکی حکومت چور ہے یا ہندوستان کی حکومت چور ہے جس پر پولیس عہدیدار نے مسکراتے ہوئے انہیں رخصت کردیا جب یہ تھانہ سے نکل رہے تھے تو عہدیدار نے کہا کہ جناب ہمیں اتنا بے وخوف مت سمجھو ہم جانتے ہیں حکومت کونسی چور ہے! شائد اس واقعہ کے بعد ہی انہوں نے یہ شعر کہے ہوں گے:
انصاف ظالموں کی حمایت میں جائیگا
یہ حال ہے تو کون عدالت میں جائیگا
دستار نوچ ناچ کے احباب لے اُڑے
سر بچ گیا ہے یہ بھی شرافت میں جائیگا
دوزخ کے انتظام میں الجھا ہے رات دن
دعویٰ یہ کررہا ہے کہ جنت میں جائیگا
بتایا جاتا ہے کہ راحت اندوری نے اپنی عملی زندگی کا آغاز پینٹنگ سے کیا وہ اچھے مصور تھے۔
راحت اندوری کا انداز بالکل دوٹوک ہوا کرتا تھا کیونکہ وہ بار بار یہ کہتے رہے کہ غلط کو غلط کھل کر بولیں تاریخ ٹکرانے والوں کی لکھی جاتی ہے تلوے چاٹنے والوں کی نہیں اس لئے کہ
گھروں کے دھنستے ہوئے منظروں میں رکھے ہیں
بہت سے لوگ یہاں مقبروں میں رکھے ہیں
ہمارے سر کی پھٹی ٹوپیوں پر طنز نہ کر
ہمارے تاج عجائب گھروں میں رکھے ہیں
یقینا ادبی دنیا راحت اندوری کے انتقال سے رنج و غم میں ڈوب گئی ان کی موت اردو ادب کا نقصان عظیم ہے۔
راحت اندوری کے انتقال کے بعد راقم الحروف نے ملک کے کچھ نامور شعرا سے بذریعہ فون بات چیت کی جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ عمران پرتاپ گڑھی نے مجھ سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ راحت صاحب کا انتقال میرے لئے بلکہ اردو دنیا کے لئے ایک عظیم نقصان ہے۔ میں نے اپنی زندگی کا پہلا مشاعرہ راحت اندوری صاحب کی صدارت میں اعظم گڑھ میں پڑھا تھا۔ انہی کے ایک شعر ’’روایتوں کی صفیں توڑ کر آگے بڑھو‘‘ نے میری شاعری میں استحکام بخشا۔ اس شعر کو ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے اپنے شعری سفر کو جاری رکھا۔ مجھے یہ بھی شرف حاصل ہے کہ میں نے راحت اندوری صاحب کے ساتھ 2012 میں عمرہ کی سعادت حاصل کی۔

ممبئی کے مشہور و معروف شاعر شکیل اعظمی نے فون پر بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ایسے بہادر شخص کی موت کورونا سے ہو نہیں سکتی شائقین نے اردو ادب کے درمیان رہنے والا قد آور شاعر کئی دنوں سے عوامی محبت کو اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا تھا۔
کانپور سے جوہر کانپوری نے اپنے گہرے دکھ کا اظہار کیا ہے کہ برسوں سے ہم مشاعروںکے سفر میں ایک ساتھ رہا کرتے ہیں۔ ان کی یادوں اور صلاحیتوں کو بھلایا نہیں جاسکتا۔ شاعر تو بہت آئیں گے لیکن اب راحت نہیں آنے والا۔
منظر بھوپالی کے مطابق راحت اندوری کی موت کے صدمہ کو میں نہیں بھلاپا رہا ہوں۔ چالیس برس سے ہم ایک ساتھ مشاعروں کا سفر کئے ہیں مجھے فخر ہے کہ میں اس صدی میں پیدا ہوا ہوں جہاں راحت اندوری جیسا شاعر موجود تھا۔ اب دوسرے راحت کے لئے صدیاں انتظار کریں گی۔ انہوں نے یہ شعر بھی کہا :
ہوائے تند کا کب ختم سلسلہ ہوگا
چراغ بجھتے چلے جارہے ہیں کیا ہوگا
بہرحال راحت اندوری نے ایک ادبی شیر کی طرح شعر و شاعری کا سفر طئے کیا اور زندگی بھر ظلم کے خلاف اور مظلوموں کے حق میں آواز اٹھائی۔ ان کا ہر شعر اور ہر شعر کا ایک ایک لفظ ظالم حکمرانوں، بدعنوان سیاستدانوں، جنگ و جدال کے جنون میں مبتلا اور فرقہ پرستی کے عارضہ سے متاثر غداران وطن پر لرزہ طاری کردیا کرتا تھا۔ آخر میں اللہ عزوجل سے یہی دعا ہے کہ وہ ڈاکٹر راحت اندوری کی مغفرت فرمائے، انہیں جنت الفردوس میں مقام عطا فرمائے اور مرحوم کے درجات بلند کرے آمین ثمہ آمین۔