دمشق : امریکہ کے شام میں سفارت خانہ نے انکشاف کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی ٹوم بَرّاک نے شامی کرد فورسز کے کمانڈر مظلوم عبدی سے اہم ملاقات کی ہے۔سفارت خانے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک بیان میں بتایا کہ ملاقات میں شام کو متحد رکھنے اور اس میں تمام فریقوں کے انضمام سے متعلق اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔بیان کے مطابق امریکی ایلچی نے مظلوم عبدی پر واضح کیا کہ شام میں اتحاد کا وقت آ چکا ہے اور مستقبل میں ایک پرامن اور خوشحال ریاست کے قیام کیلئے عملی اقدامات ضروری ہیں۔ٹوم بَرّاک نے اس موقع پر شام میں فوری طور پر سکیورٹی اور استحکام کی بحالی کیلئے فوری اقدامات کی اہمیت پر بھی زور دیا۔ایک ہفتہ قبل بھی امریکی ایلچی نے اپنی ایک بریفنگ میں کہا تھا کہ ’’ سیرین کرد ڈیموکریٹک فورسز ‘‘ (قسد) کو حکومت دمشق سے مفاہمت کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔انہوں نے اس موقع پر کہا کہ شام کو تعمیر نو کیلئے فوری وسائل درکار ہیں اور دنیا بھر کے تعاون کی ضرورت ہے۔ بَرّاک نے صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ویژن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ شام کو ایک نئی امید دینا چاہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شام کو متحد رکھنے والا نیا آئین ناگزیر ہے، جس کے تحت ہر طبقے کی نمائندگی ہو۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نہ تو علوی ریاست کا خواہاں ہے نہ دروزی علاقہ چاہتا ہے اور نہ ہی قسد کیلئے کوئی الگ انتظامی ڈھانچہ قابلِ قبول ہوگا۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’قسد ‘کے پاس دمشق سے رجوع کرنے کے سوا کوئی راستہ نہیں۔یاد رہے کہ قسد کے کمانڈر مظلوم عبدی نے رواں سال 10 مارچ کو شامی رہنما احمد الشرع سے ایک معاہدہ کیا تھا، جس میں کئی اہم شقیں شامل تھیں۔ معاہدے کی پہلی شق میں تمام شامیوں کو مذہب یا نسل سے بالاتر ہو کر سیاسی نمائندگی اور ریاستی اداروں میں شمولیت کی ضمانت دی گئی۔ دوسری شق میں کہا گیا کہ کرد برادری شام کا ایک بنیادی حصہ ہے اور ریاست اس کی مکمل شہریت اور آئینی حقوق کی ضامن ہو گی۔ تیسری اور سب سے اہم شق میں شام بھر میں مکمل جنگ بندی کا اعلان شامل تھا، جب کہ چوتھی شق کے مطابق شمال مشرقی شام کی تمام سول اور عسکری اداروں کو، بشمول سرحدی چوکیوں، ہوائی اڈوں اور تیل و گیس کے ذخائر کے، مرکزی ریاستی نظام میں ضم کیا جائے گا۔ اس معاہدے میں تمام مہاجرین کی باعزت واپسی اور ان کی ریاستی سرپرستی میں حفاظت کو بھی یقینی بنایا گیا ہے۔ ساتھ ہی سابقہ حکومت کی باقیات کے خلاف کارروائی، تقسیم کی کسی بھی کوشش کو مسترد کرنے، نفرت انگیز تقاریر کی روک تھام اور سالِ رواں کے اختتام سے پہلے عمل درآمد کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینے پر بھی اتفاق کیا گیا۔