شام میں دھماکو مادے اِنسانیت کیلئے خطرہ

   

علی حاج سلیمانی
شام میں اب بھی لوگوں کو بارودی سرنگوں اور کلسٹر بموں سے خطرات لاحق ہیں، خاص طور پر شمال مغربی شام میں لوگ آج بھی وہاں چھوڑدی گئیں بارودی سرنگوں اور دھماکوں کے ساتھ پھٹ پڑنے سے قاصر رہے کلسٹر بموں کی زد میں آکر اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں۔ ایسا ہی ایک دردناک واقعہ شامی جنگ سے بچ کر راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرنے والے بصام المصطفیٰ کے ساتھ پیش آیا۔ انہیں پناہ گزین کیمپوں میں رہنے کی بجائے بالآخر ایک ایسی عمارت مل گئی جو بمباری میں تباہ ہوگئی تھی، لیکن ان کے خیال میں وہ عمارت ان کے اور دیگر ارکان خاندان کے رہنے کے قابل تھی اور وہ خود اسے گھر کہہ سکتے تھے۔ وہ گھر یا عمارت صوبہ عدلیب کے بنیش علاقہ میں واقع ہے اور جنگ کے دوران پوری طرح تباہ ہونے سے بچ گیا تھا۔ بصام کا سوچنا تھا کہ بے گھر لوگوں کیلئے قائم کردہ کیمپ سے اچھا تو اس گھر میں رہنا ہے ، ایسے میں وہ اپنے ارکان خاندان کے ساتھ نیم تباہ گھر میں منتقل ہوگئے لیکن انہیں کیا خبر تھی کہ اس گھر میں موجود کلسٹر بم اچانک پھٹ پڑیں گے اور اس کی زد میں آکر ان کے بچوں کے چتھڑے اڑ جائیں گے۔ مصطفی فیملی کے اس گھر میں 5 ستمبر کو ایک المیہ پیش آیا اور اس میں ان کے چار بچے اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ وہ بچے دراصل وہاں رکھے گئے بموں اور دھماکو اشیاء کو کھلونے سمجھ بیٹھے اور ان سے کھیلنے لگے اور پھر ایک دھماکہ نے بصام المصطفی کی زندگی بدل کر رکھ دی۔ بصام کے مطابق ایسے دھماکو مادے جو پھٹ پڑنے سے قاصر تھے، تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے میں دبے ہوئے ہیں یا پھر گھروں کے آس پاس بھی آپ کو مل جائیں گے۔ شام کے شمال مغربی علاقوں میں اس طرح کے دھماکو مادوں کا پایا جاتا عام بات ہے۔ بصام حادثہ کے بارے میں یوں بتاتے ہیں ’’میں سمجھتا ہوں کہ میرا بیٹا میرا نور نظر احمد عمارت کی دوسری منزل کے مقفل کمرہ میں کیا رکھا ہے، وہ دیکھنے کیلئے بے تاب تھا اور وہاں رکھی گئی اشیاء کو دیکھنا چاہتا تھا چنانچہ اس کمرہ کا قفل کھولا اور دھماکو مادوں سے کھلونوں کی طرح اپنے بھائیوں کے ہمراہ کھیلنے لگا پھر ایک دھماکہ کے ساتھ ہی ان تمام کے چتھڑے اُڑ گئے اور پھر یکایک ماحول پر سناٹا چھا گیا۔ بصام کے خیال میں وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر وہاں دھماکو مادہ کیوں رکھا گیا تھا؟ ایک رہائشی عمارت میں اور وہ بھی شہری علاقہ میں کس طرح دھماکو مادہ رکھے جاسکتے ہیں۔ شام میں لوگ بالخصوص اپوزیشن کے زیرکنٹرول شمال مغربی علاقوں میں مسلسل اس طرح کے واقعات میں اپنی زندگیوں سے محروم ہورہے ہیں۔ سال 2011ء میں شام میں شروع ہوئی جنگ کے بعد سے ہی لوگ دھماکوں اور بارودی سرنگوں کی زد میں آکر مررہے ہیں اور مستقل طور پر معذور ہورہے ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ حکومت اور اس کے روسی حلیفوں کی جانب سے اپوزیشن زیرکنٹرول علاقوں میں گرائے گئے ہزاروں بم میزائیلس اور دوسرے دھماکو مادہ جو اتفاق سے پھٹ نہیں پڑے تھے ، ان سے شہریوں کو زبردست خطرہ لاحق ہے۔ الجزیرہ کے مطابق پچھلے ماہ صرف المصطفے خاندان کے ساتھ ہی ایسا دردناک واقعہ پیش نہیں آیا بلکہ عدلیب اور حمص میں ایسے ہی واقعات میں کم از کم 7 کمسن بچے شہید ہوئے۔ اس واقعہ کی اقوام متحدہ نے بھی توثیق کی ہے۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ دھماکو مادوں، بموں وغیرہ کو ناکارہ بنانے کیلئے اپوزیشن کے زیرکنٹرول علاقوں میں ٹیمیں سرگرم ہیں لیکن انہیں ان مہلک دھماکو مادوں کو پوری طرح ہٹانے میں ہنوز کامیابی نہیں مل پائی۔ نتیجہ میں کہیں نہ کہیں شہری ہلاک ہورہے ہیں۔ 2016ء میں شامی سیول ڈیفنس نے جو وائٹ ہیلمیٹ کے نام سے بھی جانی جاتی ہے۔ اس نے پھٹ پڑنے سے قاصر رہے بموں و دیگر دھماکو مادوں کو ہٹانے اور انہیں باحفاظت طریقے سے ناکارہ بنانے کیلئے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے۔ سیول ڈیفنس کے محمد سمیع المحمد نے الجزیرہ کو بتایا کہ ان کی تنظیم نے شمال مغربی شام میں اب 8 ٹیمیں تشکیل دی ہیں اور اب تک ان لوگوں نے 21 ہزار دھماکو آلات کو ناکارہ بنادیا۔ بتایا جاتا ہے کہ شامی سیول ڈیفنس نے اس بات کا مشاہدہ کیا کہ شہریو ںکی ہلاکت کیلئے 60 مختلف دھماکو مادہ استعمال کئے جن میں 11 قسم کے کلسٹر بم شامل تھے جبکہ یہ کلسٹر بم عالمی سطح پر ممنوع ہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ شامی سیول ڈیفنس نے 260 سے زائد ایسے علاقوں میں 780 سروے کئے جو دھماکو مادوں، بموں، کلسٹر بموں سے متاثر تھے۔