امریکی فوج کے ترک افواج کی فائرنگ زد میں آنے پنٹگان کا ادعا ۔ ہم نے امریکی افواج کو نشانہ نہیں بنایا ۔ ترکی کی تردید
استنبول 12 اکٹوبر ( سیاست ڈاٹ کام ) ترکی کی وزارت دفاع نے آج دعوی کیا کہ ترک افواج نے شامی سرحدی ٹاون راس العین پر قبضہ کرلیا ہے ۔ کہا گیا ہے کہ اسی شہر میں کردش افواج کے خلاف بڑے پیمانے پر فوجی کارروائیاں شروع کی گئی تھیں۔ ترک وزارت دفاع نے اپنے ٹوئیٹر پر اعلان کیا کہ آپریشن پیس اسپرنگ کے دائرہ کار کے تحت کامیاب کارروائیوں کے ذریعہ شہری علاقہ راس العین پر قبضہ کرلیا گیا ہے کہ جو دریائے فراط کے مشرق میں واقع ہے ۔ اس دوران راس العین سے ملی اطلاعات کے مطابق شام میں گھمسان کی لڑائی جارہی ہے جبکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے کردش افواج پر ہلاکت خیز حملے کے ذریعہ ان کارروائیوں کو جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جبکہ امریکی محکمہ دفاع پنٹگان نے کہا کہ اس کی افواج پر ترکی کے ٹھکانوں سے فائرنگ کی گئی ہے ۔ اردغان نے فوجی کارروائی جاری رکھنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے جس پر اقوام متحدہ نے کہا ہے کہ ترکی کی کارروائیوں کے نتیجہ میں ایک لاکھ افراد بے گھر ہوگئے ہیں۔ اردغان کی کارروائیوں کے جواب میں امریکہ کی جانب سے انتباہ دیا گیا ہے کہ صدر ٹرمپ ترکی کے خلاف انتہائی طاقتور تحدیدات عائد کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے جاریہ ہفتے امریکی افواج کو سرحد سے پیچھے ہٹ جانے کا حکم دیا تھا جس پر انہیں شدید تنقیدوں کا سامنا بھی ہے اور کہا جا رہا ہے کہ امریکہ کے اس اقدام کے نتیجہ میں ہی ترکی کی افواج کو اپنی کارروائیوں کے آغاز کا موقع مل سکا ہے ۔ ترکی کی جانب سے کردقیادت والی شامی ڈیموکریٹک فورسیس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے جو آئی ایس کے خلاف لڑائی میں امریکہ کی ایک اہم حلیف فورس سمجھی جاتی ہے ۔ پنٹگان کے ایک ترجمان نے توثیق کی کہ شمالی شامی سرحد کے قریب امریکی افواج کے ایک پوسٹ سے چند سو میٹر کے فاصلے پر ایک دھماکہ ہوا ہے ۔ ترکی کی افواج کو پتہ ہے کہ یہ علاقہ امریکی افواج کی موجودگی والا علاقہ ہے ۔ بحریہ کے کپتان بروک ڈیی ویٹ نے کہا کہ تمام امریکی فوجیوں کی گنتی کرلی گئی ہے تاہم کوئی زخمی نہیں ہوا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکی افواج نے اپنے ٹھکانوں سے دستبرداری اختیار نہیں کی ہے ۔
یہ ٹھکانے کوبانی شہر کے قریب واقع ہیں۔ ڈی ویٹ نے انتباہ دیا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ ترکی اپنے ایسے اقدامات سے گریز کرے جن کے نتیجہ میں فوری دفاعی کارروائیوں کی ضرورت آن پڑسکتی ہے ۔ قبل ازیں امریکی ڈیفنس سکریٹری مارک ایسپر نے بھی ترکی پر زور دیا تھا کہ اسے اپنی اس طرح کی کارروائیوں کو فوری روکدینا چاہئے جن کے بعد بات چیت ہوسکتی ہے ۔ انہوں نے مزید اس طرح کی کارروائیوں پر ترکی کو سنگین عواقب کا انتباہ بھی دیا ہے ۔ امریکی ٹریژری سکریٹری اسٹیون میوچن نے کہا کہ ہمیں ہر گوشے سے انتباہ مل رہا ہے کہ ہم اپنے اقدامات کو روک دیں۔ ہم واپسی اختیار نہیںکرینگے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر ٹرمپ کو یہ اختیار دیدیا گیا ہے کہ وہ ترکی کے خلاف سخت گیر تحدیدات عائد کریدں تاہم انہوں نے ابھی ایسا نہیں کیا ہے ۔ انہو ںنے کہا کہ اگر ضرورت پڑے تو ہم ترکی کی معیشت کو بند کرسکتے ہیں۔ ترکی کی جانب سے کی گئی اس طرح کی تیسری کارروائی کی عالمی سطح پر تنقید کی گئی ہے اور کئی گوشوں کا یہ بھی الزام ہے کہ امریکہ کی جانب سے کردش افواج کو دھوکہ دیا گیا ہے ۔ ترک کارروائیوں کے تیسرے دن کردش افواج اپنے دفاع کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں اور کئی زمینی حملوں کو پسپا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ علاوہ ازیں ترکی نے آج تردید کی کہ اس نے شمالی شام میں امریکی افواج کے ٹھکانے کو نشانہ بنایا ہے ۔ ترکی کے وزیر دفاع ہولوسی آکر نے ایک بیان میں کہا کہ امریکی پوسٹ یا ٹھکانے پر کوئی فائرنگ نہیں کی گئی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ترکی نے کردش پیپلز پروٹیکشن یونٹوں کی جانب سے کی گئی فائرنگ کے بعد ہی اس کا جواب دیا ہے اور امریکی ٹھکانوں کو نشانہ نہیں بنایا گیا ہے ۔ پنٹگان نے امریکی افواج کے اس طرح کی فائرنگ کی زد میں آنے کی توثیق کی تھی ۔ آکر نے کہا کہ اس بات کی خاص احتیاط کی گئی تھی کہ امریکی پوسٹ کو کوئی نقصان پہونچنے نہ پائے ۔