دمشق ۔ شام کے پارلیمانی انتخابات میں صدر بشار الاسد کی بعث پارٹی اور اس کے اتحادیوں نے اکثریت حاصل کر لی ہے تاہم جلا وطن اپوزیشن نے ان انتخابات کو ڈرامہ قرار دیتے ہوئے شرمناک بتایا ہے۔ شام کی حکمراں جماعت اور اس کے اتحادیوں نے پارلیمانی انتخابات میں حسب توقع اکثریت حاصل کر لی ہے۔ جنگ زدہ ملک شام میں ان انتخابات کے لیے انہیں علاقوں میں ووٹ ڈالے گئے جہاں حکومت کا کنٹرول ہے۔ جمعرات کو ووٹوں کی گنتی کے بعد نتائج کا اعلان کیا گیا۔ کورونا وائرس کی وبا کے سبب ان انتخابات کو دوبار ملتوی کیا جا چکا تھا۔ اس کے بعد گزشتہ اتوار یعنی 19 جولائی کو انتخابات کروائے گئے تھے۔بشار الاسد کی بعث پارٹی اور بعض دیگر جماعتوں نے ”قومی اتحاد” کے پرچم تلے متحدہ طور پر انتخابات میں حصہ لیا تھا جس نے پارلیمان کی 250 سیٹوں میں سے 177 پر کامیابی کا دعوی کیا ہے۔ شام کے انتخابی کمیشن کے سربراہ سمیر زمریق کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ انتخابات میں صرف 33 فیصد افراد نے اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا جبکہ 2016 میں ووٹنگ کا تناسب 57 فیصد تھا۔ان کا کہنا تھا کہ اگر کوئی بھی امیدوار نتائج سے مطمئن نہ ہو تو وہ، ”تین دن کے اندر اپنی شکایت درج کروا سکتا ہے۔” پارلیمانی انتخابات کیلئے سات ہزار سے بھی زیادہ پولنگ مراکز قائم کئے گئے تھے۔ اس بار ان علاقوں میں بھی ووٹنگ ہوئی جہاں خانہ جنگی کے ابتدائی دور میں اپوزیشن کا قبضہ تھا لیکن پھر بعد میں اسد کی حکومت نے ان علاقوں پر بھی اپنا کنٹرول دوبارہ حاصل کر لیا۔یہ انتخابات ایک ایسے وقت کروائے گئے ہیں جب شام کو زبردست عالمی پابندیوں کے سبب اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ حال ہی میں امریکا نے شام پر جو نئی پابندیاں عائد کی ہیں اس سے ملک کی کرنسی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ انتخابات میں حصہ لینے والے ایک ہزار 658 امیدواروں میں سے بیشتر نے ملک کی معیشت کو بحال کرنے اور جنگ سے تباہ حال انفراسٹرکچر کو از سر نو تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا۔شام کے جلا وطن اپوزیشن اتحاد نے ان انتخابات کو شرمناک قرار دیتے ہوئے، شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔