پی وشنو وردھن
بی جے پی ہر انتخاب میں اپنے پرانے گھسے پٹے حربے استعمال کرتی ہے اور کچھ حربے تو اتنے پرانے ہوتے ہیں کہ ان کے استعمال کے وقت عوام یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ بی جے پی کے پاس اب شاید کہنے اور کرنے کیلئے کچھ نہیں بچا ہے اب جبکہ دہلی کے انتخابات آئندہ ہفتے ہونے والے ہیں تو بی جے پی کے پاس اس وقت شاہین باغ نیا موضوع ہے جسے وہ پرانے رنگ میں رنگنے کی کوشش کررہی ہے۔بی جے پی کے ذریعہ شرجیل امام کے ویڈیو کی تشہیر نے سلمان نظامی کی یاد تازہ کردی۔ گجرات کے صوبائی انتخاب میں جب بی جے پی کی حالت پریشان کن ہوگئی تھی تو اس کے ہاتھ کانگریس کے ایک نامعلوم رہنما سلمان نظامی کا بیان لگ گیا۔ اس بیان میں سلمان نظامی نے پوچھا تھا کہ راہول کے والد اور دادی نے ملک کے لیے جان قربان کردی اور نانا نے ملک کو آزادی دلائی لیکن مودی کے والد ؟ اور نانا؟؟اس کا مطلب تو یہ ہے وہ مودی کے باپ دادا کی ملک کے خاطر کیے جانے والی خدمات کے بارے میں پوچھ رہے تھے لیکن اس کو وزیر اعظم نریندر مودی نے ایک نیا موڑ دے دیا۔ انہوں نے کہا کہ کیا صوفیانہ باتیں کرنے والی کانگریس کی قیادت ان کے باپ کے بارے میں پوچھنے والے اس رہنما کے خلاف بھی کارروائی کی ہمت کرے گی۔ اسی کے ساتھ ’’ راہول کا یار غدار ‘‘کے نام سے ٹوئٹر پرکانگریس کے خلاف مہم چھیڑ دی گئی جبکہ کانگریس سلمان نظامی سے تعلق کا انکار کرتی رہی۔ اسی طرح شرجیل امام کو شاہین باغ کا منتظم بتایا جارہا ہے جبکہ وہاں کے مزاحمت کار اس کا انکار کر رہے ہیں۔
سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی کو بدعنوان کہنے والے مودی نے اپنے بارے میں کہا کہ ایسی زبان کا استعمال تو ہم اپنے دشمن کے لئے بھی نہیں کرتے۔ ایسا کہنے والا سلمان راہول کے لئے ووٹ مانگتا ہے، کیا انہیں معاف کیا جا سکتا ہے؟ کیا ملک کی فوج زانی ہے۔ یہ اس ملک کے فوج کی توہین ہے یا نہیں۔کیا گجرات میں بھی گھر گھر سے افضلوں کو پیدا کرنا ہے۔ ایسے لوگوں کو سزا ملنی چاہیے اور ان کی پارٹی کو گجرات سے صاف کیا جانا چاہیے۔ مودی کے تمام داؤ پیچ کے باوجود گجرات کے ریاستی انتخاب میں کانگریس پہلے سے مضبوط بن کر ابھری اور بی جے پی کو پیچھے ہٹنا پڑا۔ گویاکہ وہ کسی طرح اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب ہوگئی لیکن دہلی میں تو ایسا لگتا ہے کہ اس کا پتہ صاف ہوجائے گا۔ شاہین باغ بی جے پی کے گلے کی ہڈی بن گیا ہے۔ پہلے تو ڈرا دھمکا کر اسے ہٹانے کی کوشش کی گئی۔ اس کے بعد ایک جعلی ویڈیو بناکر اسے روپیوں کے بل پر چلنے والی تحریک کہہ کر بدنام کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اس سے شاہین باغ تو بدنام نہیں ہوا ، الٹا بی جے پی آئی ٹی سیل کے امت مالویہ کے اوپر ہتک عزت کا ایک کروڑکا مقدمہ درج ہوگیا۔ یہ معاملہ انتخاب کے قریب آتے ہی اور بھی سنگین ہوگیا۔ اس کے بعد دہلی کے بی جے پی رہنما کپل مشرا نے شاہین باغ کو چھوٹا پاکستان قرار دے دیا۔ یہ چال بھی الٹی پڑی کیونکہ الیکشن کمیشن نے مذمت کرتے ہوئے ان پر 18 گھنٹے کی پابندی لگاکر دہلی میں بی جے پی کے چہرے پرکالک پوت دی۔ اس کے بعد رام دیو بابا نے شاہین باغ جانے کا ارادہ کیا تو وہاں کے لوگوں کی طرف سے اسے دھتکار دیا گیا۔ یکے بعد دیگرے اپنے ہتھکنڈوں کو ناکام ہوتا ہوا دیکھ کر بی جے پی نے اپنے متنازعہ ترجمان سمبت پاترا کو میدان میں اتارا۔ انہوں نے سرخیاں بٹورنے کے لیے سی اے اے مخالف احتجاج کودشاہین (بے سمت) باغ اور توہین باغ قرار دے دیا۔ سمبت پاترا کو پتہ ہونا چاہیے کہ دنیا ردیف قافیہ سے نہیں چلتی اور اب لوگ اس طرح کی جملہ بازی میں نہیں آتے۔ سمبت پاترا نے دعویٰ کیا کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہو نے والے ویڈیو کے مطابق ہندوستان کی آزادی کو ختم کرنے کے لئے شاہین باغ میں سازش رچی جا رہی ہے۔ ویڈیو میں ایک مقرر لوگوں سے آسام کا ملک کے باقی حصوں سے رابطہ توڑنے کی اپیل کر رہا ہے۔ دراصل شرجیل امام نامی جواہر لال نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے طالب علم کا یہ ویڈیو شاہین باغ کا نہیں بلکہ علی گڑھ کا ہے اور اس تقریر یا شرجیل کا شاہین باغ سے دورکا بھی واسطہ نہیں ہے۔ آسام کے وزیر ہیمنت بسو شرما کے خلاف جنہوں نے اپنے صوبے میں سی اے اے کے خلاف بی جے پی کے لوگوں کو گھر میں گھس کر مارنے کی بات کہی، اس کے خلاف ان کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ جو آر ایس ایس کے دفتر کو جلنے سے نہیں بچا سکے، اب شرجیل کے خلاف میدان میں آگئے اور مقدمہ درج کرنے کی دھمکی دی ہے۔ بسوا کو پتہ ہونا چاہیے کہ آسام میں الفا نامی ایک علیحدگی پسند پرتشدد تحریک 1979ء سے چل رہی ہے اور اس نے اب تک 20 ہزار سے زیادہ افرادکو ہلاک کیا ہے۔ ان میں اگر ہمت ہے تو الفا کے خلاف مقدمہ درج کروائیں۔ ویسے جے این یو اسٹوڈنٹ لیڈر کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا جاچکا ہے۔ یوگی تو آزادی کا نعرہ لگانے والوں کو بھی غداری کے مقدمہ کی دھمکی دیتے ہیں، اس لیے اب تو اس طرح کے مقدمات کا ڈر بھی عوام کے دل سے نکل چکا ہے۔ شاہین باغ کا ڈنکا فی الحال ساری دنیا میں بج چکا ہے اور اس کو بدنام کرنے کی کوشش ہرگز کامیاب نہیں ہوسکتی۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مودی حکومت کی تعریف کرنے والی معروف صحافی نے یوم جمہوریہ کے دن نہ صرف مرکزی حکومت کی ناکامیوں کو گنوایا بلکہ شاہین باغ کی خواتین کو بھرپور خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ اسی طرح ہندوستان کے اندر ایمنسٹی انٹر نیشنل کے سربراہ آکار پٹیل نے بھی ایک طویل مضمون لکھ کر نہ صرف شاہین باغ کے احتجاج کو بلکہ اس کے طریقہ کار کو بھی حق بہ جانب ٹھہرایا ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے اچھے مقاصد کی خاطر چلائی جانے والی تحریکیں راہ بھٹک کر غلط ذرائع اختیار کرلیتی ہیں اور یہ بھی ہوتا ہے کہ نہایت مہذب انداز میں چلنے والی تحریکات کے پیچھے گھناؤنے مقاصد کارفرما ہوتے ہیں لیکن آکار پٹیل گواہی دے رہے ہیں شاہین باغ ان دونوں عیوب سے پاک ہے۔ اب ہندوستانی عوام کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ تولین سنگھ اور آکار پٹیل جیسے لوگوں کی مانیں یا سمبت پاترا جیسے جھوٹوں کی کذب گوئی پر یقین کریں۔کتنے افراد ہیں ؟ ان کی عمریں کیا ہیں؟بچے کتنے ہیں ؟شادی شدہ اور غیر شادی شدہ افراد کتنے ہیں؟ملازمت کیا ہے؟مذہب کونسا ہے؟مقام پیدائش کیا ہے؟مادری زبان کیا ہے ؟کوئی معذور ہے کیا؟کیا افراد خاندان پسماندہ طبقات ایس سی یا ایس ٹی سے تعلق رکھتا ہے؟ وغیرہ وغیرہ ۔