شاہین باغ دہلی کا احتجاج، سبزی باغ پٹنہ، روشن باغ الہ آبادتک پھیل گیا

,

   

منگلور، کولکتہ میں بھی احتجاجیوں کے سروں کا سمندر، خواتین کی ہمت کو سلام، رخسار پر ترنگے کی پینٹنگ، ہاتھوں میں ترنگا اور زبان پر حب الوطنی کے نغمے

نئی دہلی،15جنوری (سیاست ڈاٹ کام) شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے )، قومی شہریت رجسٹر (این آر سی) اور این پی آر کے خلاف سرد راتوں کی پرواہ کئے بغیر خواتین، بچے، بزرگ اور نوجوان پچھلے ایک مہینے سے دن رات شاہین باغ میں احتجاج کررہے ہیں۔ شاہین باغ کا یہ احتجاج اب سارے ملک میں پھیل گیا ہے۔ پنٹہ کے سبزی باغ، الہ آباد کے روشن باغ کے علاوہ کولکتہ کے پارک سرکس میں مسلم مرد و خواتین حضرات کا کثیر اجتماع دیکھا جارہا ہے۔ کرناٹک کے منگلور میں بھی آج لاکھوں افراد نے احتجاج کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب مسلم پڑوسیوں نے مل کر شاہین باغ کا احتجاج شروع کیا تھا۔ اس احتجاج کا ایک ماہ مکمل ہورہا ہے۔ شاہین باغ سے حوصلہ پاکر ملک کے کئی شہروں میں الہ آباد سے کولکتہ، کولکتہ سے پونا اور پونا سے بھوپال تک اور بھوپال سے منگلور تک احتجاج پھیل گیا ہے۔ ملک بھر سے تعلق رکھنے والے مرد و خواتین پارکوں، میدانوں اور سڑکوں پر جمع ہورہے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف اپنا احتجاج درج کرا رہے ہیں۔ روشن باغ کی بہنوں نے کہا کہ اگر شاہین باغ میں احتجاج کرنے والی ہماری بہنیں لگاتار احتجاج میں بیٹھی ہیں تو ہم کیوں نہ ان کا ساتھ دیں۔ سارا احمد نے بتایا کہ وہ ایک خانگی شعبہ میں کام کرتی ہیں۔ الہ آباد میں چار دن قبل شروع ہونے والے روشن باغ احتجاج میں حصہ لے رہی ہیں۔ 19 ڈسمبر کو اترپردیش کے تمام علاقوں میں پولیس کی بربریت پر اپوزیشن کی خاموشی نے ہمیں جگایا ہے۔ شاہین باغ کی طرح کانپور کے محمد علی پارک میں پہلی بار احتجاجی مظاہرہ ہوا۔ کانپور کے چمن گنج کے بعد الہ آباد کے روشن باغ میں بھی مظاہرے شروع کئے گئے۔ یوپی میں ہر کونے میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ سارا احمد نے کہا کہ ہر بار تو ایسا نہیں ہوسکتا کہیں نہ کہیں سے تو چنگاری نکلتی ہی ہے اور یہ روشن باغ وہی چنگاری ہے۔ کولکتہ میں خواتین زیرقیادت مخالف سی اے اے احتجاجیوں نے 7 جنوری سے اپنا احتجاج شروع کیا ہے۔ ہزاروں خواتین، بچے ہاتھوں میں پلے کارڈس لئے نعرے لگاتے ہوئے مظاہرے کررہے ہیں۔ مقامی مساجد کے باہر جمع ہورہے ہیں۔ پڑوسی علاقہ پارک سرکس میں بھی کثیر تعداد میں مسلمان احتجاج کررہے ہیں۔ نوشین باباخان کولکتہ کی پروفیسر ہیں، کا کہنا ہیکہ یہ احتجاج اپنی مرضی سے کیا جارہا ہے۔ بہار میں شاہین باغ کے احتجاج کو نظیر بناتے ہوئے پٹنہ کے سبزی باغ میں بھی مظاہرے شروع کئے گئے۔ گیا کے شانتی باغ کے علاوہ کشن گنج، بہادر گنج اور بھوپال گنج ٹاؤنس میں بھی احتجاج کیا جارہا ہے۔ سی پی آئی لیڈر اور جے این یو اسٹوڈنٹ یونین کے سابق لیڈر کنہیا کمار نے سبزی باغ کا دورہ کرتے ہوئے احتجاجوں سے خطاب کیا۔ ’ہم کیا چاہتے ہیں آزادی‘، ’انقلاب زندہ باد‘ اور ’سمودھان بچاؤ‘ جیسے نعرے لگائے گئے۔ بھوپال کے اقبال میدان، پونے کے کونڈھوا، جئے پور کے البرٹ ہال، رائے پور کے جیشتھم چوک اور دہلی کے کھروجی علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔ کنہیا کمار نے عوام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس تحریک کو بڑی عظیم تحریک میں تبدیل کرنا ہے۔ ہماری یہ لڑائی دستور کے تحفظ کیلئے ہے۔ دستور نے ہمیں بلالحاظ مذہب، ذات، نسل، رنگ حقوق دیئے ہیں۔ اس حقوق کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ سبزی باغ کی رہنے والی خاتون محبوب النساء نے کہا کہ این آر سی کیلئے جو کام کیا جارہا ہے اس پر خرچ ہونے والی رقم ہماری ہے۔ ہم ایسا ہونے نہیں دیں گے۔ نصرت آراء نے کہا کہ این آر سی کے خلاف ملک بھر میں بیداری پیدا ہوچکی ہے۔ معمر احتجاجی خاتون قریشہ بیگم نے جو پیر میں زخم کے باوجود تنہا احتجاجی مقام پر پہنچی ہیں۔ ان کے جسم پر گرم کپڑے بھی نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے زمانے میں دستاویزات نہیں ہوتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم کہ میری عمر کیا ہے۔ ان کے رخساروں پر ترنگے کی پینٹنگ ،ہاتھوں میں ترنگا،زبان پر حب الوطنی کے نغمے ،آئین بچانے ،برابری اور ہندوستان زندہ بادکے نعرے سڑکوں پر گونج رہے ہیں۔قومی دارالحکومت میں 15دسمبر کو شہریت قانون کے خلاف احتجاج کے دوران جامعہ کیمپس میں گھس کر پولیس کی بربریت کے خلاف شاہین باغ کی خواتین نے متھرا روڈ کو نوئیڈا سے جوڑنے والے کالندی کنج روڈ کے درمیان احتجاج شروع کردیا۔اس تحریک کی قیادت بھی خواتین ہی کررہی ہیں۔احتجاج کی قیادت کرنے والی شاہین کوثر نے بتایا کہ روز دھرنے مظاہرے کی شروعات آئین کی تمہید سے کی جاتی ہے ۔انگریزی اور ہندی میں سبھی لوگ ایک ساتھ آئین کی تمہید پڑھنے کے بعد اس کی حفاظت کرنے کا حلف لیتے ہیں۔ملک بھر سے مختلف طبقوں کے لوگ مظاہرے میں شامل ہونے کے لئے یہاں ٓرہے ہیں۔اس تحریک کے شروعاتی دنوں سے حصہ رہیں رضوانہ نے بتایا کہ چونکہ یہ لڑائی آئین کو بچانے اور بچوں کے مستقبل کے سلسلے میں ہے اس لئے ہم سب کچھ چھوڑ کر کالا قانون واپس کرنے کے لئے سڑکوں پر دن رات بیٹھے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ وہ دمے کی مریض ہیں پھر بھی ٹھنڈ کی پرواہ کئے بغیر سڑک پر راتیں گزار رہی ہیں۔اترپردیش کے گورکھپور کی رہنے والی پراچی پانڈے شاہین باغ میں احتجاج شروع ہونے کے چوتھے دن بطور صحافی پہنچیں تھیں۔پراچی صحافت کی نوکری چھوڑ کر اب شاہین باغ میں جاری تحریک میں اسٹیج کی کنوینر ہیں اور رات بھر وہیں رکتی ہیں۔پراچی نے بتایا کہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرے کے بعد جامعہ میں طلبہ کے ساتھ پولیس نے جیسی بربریت دکھائی وہ بہت افسوس ناک اور قابل مذمت ہے ۔انہوں نے بتایا کہ جامعہ کے واقعہ کے بعد شاہین باغ کی خواتین نے جو حوصلہ دکھایا اس سے وہ اتنا متاثر ہوئیں کہ سب کچھ چھوڑ کر نہ صرف تحریک کا حصہ بن گئیں بلکہ اسٹیج کی کنوینر بن گئیں۔انہوں نے بتایا کہ جب وہ یہاں بطور صحافی آئیں تھیں تو لوگوں نے ،خصوصاً خواتین نے بے حد پیار دیا۔مجھے یہاں آکر اچھا لگا۔پھر میں نے سوچا کیوں نہ میں بھی اس تحریک کے لئے کچھ کروں اور اب میں یہاں اسٹیج سنبھالتی ہوں۔انہوں نے کہا کہ کل پولیس نے مظاہرین کو اپنی جگہ سے ہٹنے کی گزارش کی تھی لیکن سی اے اے واپس ہونے تک خواتین نے یہیں جمے رہنے کا فیصلہ کیا۔مشہور سماجی کارکن اور مصنفہ اروندھتی رائے ،کانگریس کے سینئر لیڈر ششی تھرور،سلمان خرشید سمیت درج فہرست ذات وقبائل کی کئی تینظیموں اور سکھ سماج کے لوگوں نے یہاں آکر خواتین کے جذبے کو سلام کیا اور ان کی تحریک کوپوری حمایت دینے کا وعدہ کیا۔