شاہین باغ کے مظاہرین کا نصف شب قومی ترانے کیساتھ نئے سال کا آغاز

,

   

2020
کے موقع پر پارٹی دعوت ناموں کا بائیکاٹ ۔کڑاکے کی ٹھنڈ میں بھی ہرطرف ’’ ہم لے کے رہیں گے آزادی ‘‘ کی گونج
نئی دہلی۔یکم جنوری (سیاست ڈاٹ کام) شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ اور جامعہ نگر واقع شاہین باغ میں پچھلے دو ہفتوں سے احتجاج جاری ہے۔ کڑاکے کی اس سردی میں شاہین باغ اوراطراف کے مختلف علاقوں کی خواتین یہاں جمع ہیں اوران کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج اس وقت تک جاری رہیگا، جب تک کہ مرکزکی مودی حکومت شہریت ترمیمی قانون کو واپس نہیں لے لیتی۔نئے سال کے موقع پریہاں کے نوجوانوں اورطلباء نے پارٹیوں کوخیرباد کہہ کراوربوڑھوں نے گھرپرآرام سے بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ترک کرکے یہاں احتجاج کیلئے جمع ہوئے۔ نیا سال 2020 کے شروع ہوتے ہی قومی ترانہ گا کریہاں کے ہزاروں افراد نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف ایک منفرد احتجاج کیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ اورشاہین باغ دونوں مقام پرہزاروں کی تعداد میں جامعہ نگرکے عوا م نے کپکتاتی سردی میں بھی حوصلہ اور جذبہ دکھاتے ہوئے اس منفرد احتجاج میں شریک ہوکر منفرد اندازمیں سی اے اے کی مخالفت کرتے رہے۔ بہت سارے لوگ پنڈال کے ارد گرد گھومتے اورموسم سرما کی سردی کو برداشت کرنے کیلئے چائے کے اسٹال پرجمع ہو کر چائے پیتے جبکہ کچھ دوسرے لوگ پنڈال کے اندرہی رہ کراسٹیج سے یکے بعد دیگرے خطاب کرنے والے مقررین کوبغورسماعت فرماتے۔ کئی لوگ قومی پرچم لہراتے پھررہے تھے جبکہ کچھ دیگرنئے قانون کے خلاف پلے کارڈ اٹھائے ہوئے تھے اور’ہم لے کے رہیں گے آزادی‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔جیسے ہی گھڑی کی سوئی 12 کے ہندسے پر پہنچی، مظاہرین خوشی سے جھوم اٹھے اور اپنے ساتھی مظاہرین کو نئے سال کی مبارکباد دیی اوررپھر تھوڑی دیربعد ہی ایک آواز میں قومی ترانہ گانے لگے اوراس کے بعد ’ انقلاب زندہ باد‘ کے نعرے لگائے۔ہزاروں افراد کے درمیان نوجوان محنت کش پیشہ ور افراد کا ایک گروپ تھا جو دہلی کے مختلف حصوں سے آیا تھا جس نے 2020 کے موقع پر پارٹی دعوت ناموں کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ ایک نجی کمپنی میں کام کرنے والے ایک 30 سالہ شخص نے پی ٹی آئی کو بتایا’’ یقینا اگر حالات معمول پر ہوتے تو میں نئے سال کے موقع پر سارا دن ہی جشن منا رہا ہوتا‘‘۔اپنے نام کے بارے میں پوچھنے پر اس شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی اور مزید کہا ’’ میں نہیں چاہتا کہ یہاں کسی مذہب کے ساتھ میری شناخت ہوجائے۔ میں یہاں ایک بڑے مقصد کے لئے آیا ہوا ہوں۔ مجھے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کی مخالفت کرنی ہے‘