ظفر آغا
کیا آپ ہندوستانی مسلمان ہیں! اگر آپ کا جواب ہاں ہے تو یاد رکھیے آپ کو قیمت چکانی ہوگی۔ جی ہاں، اگر آپ ریڑھی-پٹری والے ہیں، یا رکشہ چلا کر گزر بسر کرتے ہیں تو وہ قیمت ’ماب لنچنگ‘ کی شکل میں ہو سکتی ہے۔ یا پھر اگر آپ پڑھے لکھے متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں تو گجرات دنگوں میں احسان جعفری کی طرح کی قیمت دینی پڑ سکتی ہے۔ اور غلطی سے اگر آپ مشہور و معروف ہیں اور اپنے پیشے میں یکتا ہیں تو اس مغالطے میں مت رہیے کہ آپ قیمت چکانے سے بچے رہیں گے۔ آخر شاہ رخ کو دیکھیے، وہ قیمت چکا رہا ہے کہ نہیں۔ شاہ رخ کوئی معمولی انسان نہیں ہے۔ ہندوستانی سنیما کا بادشاہ ہے۔ ابھی حال تک بالی ووڈ اس کی انگلیوں پر ناچ رہا تھا۔ ایک ہندوستان کیا، ساری دنیا میں اس کے پرستار ہیں۔ جرمنی اور ترکی جیسے نہ جانے کتنے ممالک میں کروڑوں اس کے دیوانے ہیں۔ مگر اس کے بیٹے آرین خان کو ڈرگ معاملے میں گرفتار کر شاہ رخ خان جیسے کی راتوں کی نیند اڑا دی گئی۔ لیکن اس کو کس بات کی قیمت چکانی پڑی۔ دراصل وہ کانگریس کے نزدیک ہے۔ راہل گاندھی اور پرینکا گاندھی کے گھر کھلے بندوں آتا جاتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی شان میں آئے دن ٹوئٹ نہیں کرتا۔ بس دیکھیے اس کی کیا گت بنائی گئی۔ اور تو اور کرکٹر شامی نے پاکستان کے خلاف ایک اوور میں زیادہ رن خرچ کر دیے، بس قیامت ٹوٹ پڑی کیونکہ وہ مسلمان ہے۔
لیکن شاہ رخ کے بیٹے آرین خان کے خلاف تو کوئی معاملہ ہی نہیں بنتا ہے۔ وہ جس سمندری جہاز پر جانے والا تھا، وہ اس کے اندر تک نہیں پہنچا تھا۔ اس کے پاس سے کوئی ڈرگ بھی نہیں برآمد ہوئی۔ کہتے ہیں کہ اس کے دوست جو اس کے ساتھ تھا اس کے پاس سے چند گرام ڈرگ برآمد ہوئی۔ ثبوت کے طور پر واٹس ایپ پر ایک چیٹ پیش ہوئی اور بس شاہ رخ خان کے خاندان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ آرین کو ممبئی کے سب سے خطرناک جیل آرتھر روڈ جیل خانے میں 25 روز کاٹنے پڑے۔ مقدمہ اتنا کمزور تھا کہ ممبئی ہائی کورٹ نے اس کو فوراً ضمانت پر رہا کر دیا۔ لیکن نہیں صاحب، ہائی کورٹ بھلے ہی رہا کرے، حکومت ہند کا نارکوٹکس بیورو آرین خان کو ’نشیڑی اور ڈرگ اسمگلر‘ ثابت کرنے پر تلا بیٹھا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے پیچھے سیاسی سازش تھی۔ لیکن شاہ رخ خان کون سا بڑا سیاستداں ہے کہ اس سے کسی کو کوئی خطرہ ہے۔ شاہ رخ خان سیاستداں بھلے ہی نہ ہو لیکن وہ مسلمان تو ہے۔ بس اس کا یہی گناہ ہے اور اس کا خاندان اسی کا خمیازہ بھگت رہا ہ۔
کیا فیس بک اب دنگے بھی بھڑکاتی ہے!
جناب آپ سمجھے نا! سوشل میڈیا پر سَنگھ پریوار کا پوری طرح قبضہ ہو چکا ہے۔ واٹس ایپ پر تو سَنگھ کے گروپ دن رات مسلمانوں کے خلاف اور آر ایس ایس نظریہ کے مخالفین کے خلاف زہر گھولتے رہتے ہیں۔ اس کا استعمال بی جے پی الیکشن جیتنے کے لیے بھی کرتی ہے۔ اب یہ پتہ چلا کہ فیس بک پر بھی سَنگھ کا قبضہ ہے جس کا استعمال طرح طرح سے نفرت پھیلانے اور حد یہ ہے کہ دنگوں کے لیے فضا ہموار کرنا ہے۔ سَنگھ کے بارے میں تو سب واقف ہیں کہ وہ تو ہر طرح سے ہر پلیٹ فارم سے نفرت کا پروپیگنڈا روکنے کے لیے کوئی قدم اٹھائے گا! ایسا لگتا تو نہیں ہے، کیونکہ واٹس ایپ بھی فیس بک کا ہی پلیٹ فارم ہے۔ او راس کے بارے میں کمپنی بخوبی واقف ہے کہ اس کا استعمال ہندوستان میں سنگھ و بی جے پی والے کس طرح نفرت پھیلانے میں کر رہے ہیں۔ لیکن ابھی تک کمپنی نے اس کو روکنے کے لیے کوئی خاطر خواہ قدم نہیں اٹھایا۔ بھلا پھر فیس بک سے کیا توقع کی جائے کہ وہ اس سلسلے میں کوئی خاطر خواہ قدم اٹھائے۔ یوں بھی اسی ماہ امریکی میڈیا میں یہ بات کھل کر کہی گئی کہ فیس بک اپنی سماجی ذمہ داریوں کے بہ نسبت اپنے منافع میںد لچسپی رکھتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان سے ہزاروں کروڑ منافع کمانے والی کمپنی بی جے پی اور سَنگھ کے پروپیگنڈا کے خلاف کوئی کارروائی کیوں کرے گی۔ ہندوستان میں آئے دن فساد ہوتے رہتے ہیں۔ کبھی بنگال کا چناو تو کبھی اتر پردیش کا چناؤ تو کبھی لوک سبھا کا چناؤ۔ ان دنوں فیس بک پلیٹ فارم پر بی جے پی کئی سو کروڑ روپیوں کا خرچہ ہر چناؤ میں کرتی ہے۔ جب کمپنی بی جے پی سے کروڑہا کا منافع کما رہی ہے تو بھلا پھر وہ کیوں بی جے پی کی منافرت کے خلاف کوئی قدم اٹھائے گی۔
الغرض اب فیس بک جیسا سوشل میڈیا بھی اس ملک میں اقلیتوں اور بی جے پی مخالف قوتوں کے خلاف ایک اہم ذریعہ بنتا جا رہا ہے اور ہم اور آپ خاموش تماشائی بنے اس تماشے کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ ہم اور آپ کریں بھی تو کریں کیا!