شب کے سناٹے میں یہ کس کا لہو گاتا ہے

   

لداخ کا دورہ بعد میں…پہلے علاقہ واپس لو
پابندیاں محض دکھاوا … دیش بھکتی کے دعویدار خاموش

رشیدالدین
کسی بھی ملک کا سربراہ حکومت جب قوم سے خطاب کرتا ہے تو وہ ملک کو درپیش تمام مسائل کا احاطہ کرتا ہے ۔ عوام بھی سربراہ مملکت سے توقعات اور امیدیں وابستہ کرلیتے ہیں۔ عوام کو امید ہوتی ہے کہ حکومت کے سربراہ ان کے مسائل میں کمی کریں گے اور ملک کو درپیش حالات سے قوم کو روشناس کرائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے ماسوا دیگر ممالک میں صدر اور وزیراعظم کے قوم سے خطاب پر عوام ہمہ تن گوش ہوجاتے ہیں۔ اتنا ہی نہیں دنیا بھر کی نظریں خطاب پر مرکوز ہوتی ہیں کہ خارجہ پالیسی کے بارے میں کوئی اہم فیصلہ کا اعلان نہ ہوجائے۔ وزیراعظم بننے کے بعد نریندر مودی نے بیرونی دوروں اور قوم سے خطاب کے معاملہ میں ورلڈ ریکارڈ قائم کیا ۔ سابق میں بھی وزرائے اعظم قوم سے خطاب کرتے رہے لیکن یہ انتہائی اہم مسئلہ پر قوم کو واقف کرانے کیلئے ہوا کرتے تھے ۔ نریندر مودی نے قوم سے خطاب کو اپنی شہرت کا ذریعہ بناکر اس کی اہمیت کو گھٹادیا ہے ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے آج تک مودی نے میڈیا کا سامنا نہیں کیا لیکن بیشتر میڈیا گھرانوں کو بی جے پی اورحکومت کا گودی میڈیا بنادیا۔ گودی میڈیا کی تعریفوں سے دل نہیں بھرا تو من کی بات کے عنوان سے ریڈیو پر خطاب کا آغاز کیا۔ ظاہر ہے کہ جب تقریر اور خطاب میں عوام اور قوم کو درپیش مسائل کی جگہ صرف لفاظی ، خودستائی ، جھوٹے وعدے اور اپنا منہ میاں مٹھو کا معاملہ ہو تو پھر عوام کا بیزار ہونا فطری ہے۔ کہاوت مشہور ہے کہ خالی برتن آواز بڑی کرتا ہے ۔ ٹھیک اسی طرح مودی کے پاس کوئی ایسا کام نہیں جسے کارنامہ کے طور پر پیش کیا جاسکے۔ لہذا الفاظ کی تک بندی کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے آغاز سے آج تک وزیراعظم نے 6 مرتبہ قوم سے خطاب کیا ۔ 5 مرتبہ کے خطاب میں کورونا اور لاک ڈاؤن سے مربوط امور کا احاطہ کیا گیا ۔ کبھی تالی تو کبھی تھالی بجانے اور کبھی موم بتی جلانے کورونا کو بھگانے کا تجربہ کیا گیا ۔ نریندر مودی کے چھٹویں خطاب کی غیر معمولی اہمیت تھی لیکن قوم کو مایوسی ہوئی ۔ جن حالات کے پس منظر میں یہ خطاب ہوا ، وہ سرحد پر چین سے جاری تنازعہ ہے۔ لداخ میں چینی افواج کے حملہ میں 20 ہندوستانی سپاہیوں کی موت کے بعد مودی کا قوم سے پہلا خطاب تھا۔ عوام کو امید تھی کہ وزیراعظم تازہ ترین سرحدی تنازعہ اور فوجی جوانوں کی موت کا بدلہ لینے کی کارروائی کا انکشاف کریں گے۔ سرحد کی حفاظت کیلئے ایک کمانڈر کے بشمول 20 سپاہیوں کی قربانی پر سارے ملک میں غم و غصہ کا ماحول ہے۔ چین کو منہ توڑ جواب دینے کے اعلانات اور دعوے تو کئے گئے لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہوا۔ ہمارے جوان ملک پر قربان ہوئے اور ہندوستانی علاقہ پر آج بھی چین کا قبضہ برقرار ہے۔ پلوامہ میں پاکستانی دہشت گرد حملہ کے بعد قوم سے خطاب میں مودی نے پاکستانی علاقہ میں سرجیکل اسٹرائیک کا خلاصہ کیا تھا لیکن چینی افواج کی کارروائی کے دو ہفتہ بعد قوم سے خطاب میں جوابی کارروائی اور حساب برابر کرنے کا کوئی ذکر نہیں تھا ۔ سرحد پر سنگین صورتحال اور کشیدگی کے باوجود مودی نے چین کا نام تک نہیں لیا۔

چین کو بھلا کر چنا کی بات کی۔ چین کے ہاتھوں 20 سپاہیوں کو نشانہ بنانا اور کئی کیلو میٹر تک ہندوستانی علاقہ پر قبضہ سے بڑھ کر کوئی اور واقعہ نہیں ہوسکتا جو قوم سے خطاب کا موضوع بنے۔ مفت راشن اسکیم اور کورونا سے بچاؤ کے احتیاطی تدابیر کے بارے میں کوئی مرکزی وزیر اعلان کرسکتے تھے۔ قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ 20 فوجیوں کے خون ناحق کا بدلہ کیوں نہیں لیا گیا ؟ پاکستان کے معاملہ میں دو دن میں جوابی کارروائی سرجیکل اسٹرائیک کی شکل میں کی گئی لیکن چین کے معاملہ میں جوابی کارروائی توکجا سخت الفاظ کے استعمال اور بڑی آواز نکالنے سے بھی حکومت خوفزدہ دکھائی دے رہی ہے۔ ہمارے فوجی جوانوں کا نقصان ہوا اور ہماری زمین پر چین کا قبضہ ہے لیکن مصالحت کے لئے ہندوستان ، چین کی منت سماجت کر رہا ہے ۔ فوجیوں کی موت کے بعد ہندوستانی وزیر خارجہ نے چینی ہم منصب کو فون کیا ۔ فوجی عہدیداروں کے درمیان کئی دور کی بات چیت بے نتیجہ رہی ۔ یہ مذاکرات چین کے قبضہ میں موجود ہندوستانی علاقہ میں نہیں ہوئے بلکہ ہندوستان کے موجودہ حدود میں ہوئے ہیں یعنیٰ کہ چین ہمیں اپنی زمین پر قدم رکھنے کی اجازت نہیں دے رہا ہے ۔ چین کے آگے اس طرح جھکنے اور حق پر ہونے کے باوجود مخالف سے دبنے کی آخر کیا وجوہات ہیں ؟ مودی نے اعلان کیا کہ ہندوستان نے سپاہیوں کی موت کا بدلہ لے لیا۔ پہلے تو اس دعویٰ میں کوئی دم نہیں اور اگر واقعی بدلہ کی کارروائی کی گئی تو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کی طرح ثبوت قوم کے سامنے پیش کیا جائے۔ صرف زبانی دعوؤں پر عوام بھروسہ کرنے والے نہیں ۔ قول اور عمل میں تضاد کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف بدلہ چکانے کی بات تو دوسری طرف اراضی سے دستبرداری کے لئے چین سے منت سماجت ۔ نریندر مودی نے اچانک لداخ کا دورہ کرتے ہوئے فوجی جوانوں سے ملاقات کی۔ اپنے خطاب کے ذریعہ انہوں نے فوج کا حوصلہ بڑھانے کی کوشش کی لیکن صرف دورے یا جذباتی تقریر سے فوج کو حوصلہ نہیں ملے گا ۔ فوج کے بندھے ہاتھوں کو کھول کر انہیں کارروائی کی اجازت دی جائے ۔ فوج کے پاس گن تو ہے لیکن وہ اپنی حفاظت کیلئے بھی اسے چلا نہیں سکتے۔ یہ فوج کے لئے شایان شان نہیں ہے۔ مودی کو شہرت کے لئے سرحدی علاقوں کے دورہ کے بجائے زمین واپس حاصل کرنے عملی اقدامات کرنے چاہئے ۔

نریندر مودی نے قوم سے خطاب میں اپنی ذہنی تنگ نظری اور اذبیت کا مظاہرہ کیا۔ مفت راشن اسکیم کی نومبر تک توسیع کا اعلان کرتے ہوئے جولائی سے تہواروں کے موسم کے آغاز کا ذکر کیا۔ انہوں نے ملک کے مختلف تہواروں کے نام لئے لیکن عیدالاضحیٰ کو بھول گئے جو ملک کی سب سے بڑی اقلیت اور دوسری بڑی ا کثریت کی اہم عید ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس عید میں جانوروں کی قربانی مودی کو پسند نہیں لہذا انہوں نے اس کا ذکر کرنا بہتر نہیں سمجھا۔ ملک کے حکمراں کی حیثیت سے مودی نے ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘‘ کا نعرہ لگایا تھا لیکن اس پر عمل ندارد ہے۔ چین کے ساتھ جاری تنازعہ پر سیاسی اور فوجی امور کے مبصرین کو اس بات پر حیرت ہے کہ ہندوستان آخر چین سے خوفزدہ کیوں ہے ؟ اگر پاکستان کی سرحد پر لداخ کی طرح واقعہ ہوتا تو کیا اتنی مرتبہ فوجی عہدیداروں سے بات چیت کی جاتی ؟ پاکستان نے ہندوستانی سفارتکار کے ساتھ بدسلوکی پر بطور احتجاج اپنے مشن کے عہدیداروں کی تعداد کو کم کردیا گیا لیکن چین کے معاملہ میں اس کے سفیر کو وزارت خارجہ طلب کر کے احتجاج تک درج نہیں کیا گیا۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ چین سے سفارتی تعلقات منقطع کر کے ہندوستانی سفیر کو واپس طلب کرلیا جاتا۔ چینی اشیاء اور اس کے انٹرنیٹ سائیٹس پر پابندی عائد کرنا محض دکھاوا ہے۔ چین کے خلاف جوابی کارروائی کے معاملہ میں ملک کے حکمراں شرمندگی سے منہ چھپانے پر مجبور ہیں۔ 1962 ء میں چین سے جنگ کے موقع پر ہندوستان کے کئی علاقوں پر چین نے قبضہ کیا تھا جو آج بھی برقرار ہے۔ جنگ کے بعد اس وقت کے وزیر دفاع کرشنا مینن نے استعفیٰ دے دیا ۔ انہیں اس بات کا احساس تھا کہ چین کو ہندوستانی علاقوں پر قبضہ سے نہیں روکا جاسکا لہذا وزیر دفاع کی حیثیت سے انہوں نے اخلاقی ذمہ داری قبول کی ۔ لداخ میں 20 فوجی ملک پر قربان ہوئے اور کئی کیلو میٹر کا علاقہ چین کے قبضہ میں ہے جہاں اس نے فوجی مشقوں کا آغاز کردیا ہے، اس کے باوجود آج تک وزیر دفاع نے استعفیٰ تو دور کی بات قوم سے معافی تک نہیں مانگی۔ مودی نے چین کے صدر کو احمد آباد میں جھولا جھلاکر چائے پیش کی تھی، لہذا چین کی غداری پر مودی کو استعفیٰ دینا چاہئے تھا۔ دیش بھکتی کا دعویٰ کرنے والی بی جے پی ملک میں برسر اقتدار ہے لیکن سارے دیش بھکت منہ چھپاتے پھر رہے ہیں۔ موجودہ حالات میں آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ صرف پاکستان کے معاملہ میں ہی موہن بھاگوت اور ان کے ہمدرد کی زبان کھلتی ہے۔ کیا یہی دیش بھکتی ہے کہ 20 سپاہیوں کی قربانی پر بھی آر ایس ایس دیش بھکتی کا مظاہرہ نہ کرے۔ علی سردار جعفری نے کیا خوب کہا ہے ؎
شب کے سناٹے میں یہ کس کا لہو گاتا ہے
سرحد درد سے یہ کس کی صدا آتی ہے