شخصی آزادی اور عدالتوں کا دوہرا معیار

   

راج دیپ سردیسائی
گیارہ نومبر کو سپریم کورٹ میں ٹیلی ویژن اینکر ارنب گوسوامی کی درخواست ضمانت منظور کرتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرچور نے کہا کہ ہمیں ملک کی ہر ہاسکورٹ کو یہ پیغام پہنچانے دیجئے کہ برائے مہربانی آپ یعنی ہاسکورٹس شخصی آزادی کے تحفظ کے لئے اپنے دائرہ اختیار کا بھرپور استعمال کیجئے کیونکہ یہی بحیثیت دستوری عدالتیں ہماری بقاء کی حتمی وجہ ہے اگر آج یہ عدالتیں شخصی آزادی کے حق کی خلاف ورزی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرتی ہیں تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تباہی و بربادی کی راہ پر گامزن ہیں۔

اگر انہیں کل جیل جانا پڑے تب مرکزی وزراء سے کسی بھی طرح کی توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ ان کی تائید میں کوئی ٹوئٹ کریں یا پھر ان کی تائید و حمایت میں سڑکوں پر احتجاج کیا جائے یا سوشل میڈیا پر برہمی ظاہر کی جائے۔ جیسا کہ دوسرے کیسوں میں ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت کیا گیا۔ ٹوئٹ بھی کئے گئے، سڑکوں پر احتجاج بھی ہوا اور سوشل میڈیا پر برہمی ظاہر کی گئی لیکن بحیثیت ایک شہری پیٹریسیا مکھم کو بھی شخصی آزادی کا ایسا ہی بنیادی حقوق حاصل ہے جیسے دوسروں کو حاصل ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں کئی ایسے درجنوں صحافی ہیں جن پر بغاوت اور غداری کے الزامات عائد کئے گئے ہیں کیونکہ ان کی تحریروں اور بیانات کو اسٹیبلشمنٹ دشمن تصور کیا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جن صحافیوں کے تحریر کو یا بیانات کو اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سمجھا جائے گا ان پر غداری اور بغاوت کے مقدمات درج کئے جائیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہیکہ ارنب گوسوامی کیس میں ایسا کوئی مشورہ نہیں دیا گیا اور نہ سوال کیا گیا جہاں تحت کی عدالت کے دائرہ اختیار کو نظرانداز کیا گیا۔ سپریم کورٹ یہ سوال ارنب گوسوامی کے کیس میں کرسکتی تھی، لیکن کیا وجہ ہے کہ اس نے یہ سوال صدیق کپن کے کیس میں کیا ارنب گوسوامی کے کیس میں نہیں۔

درخواست ضمانت کے معاملات میں عدلیہ کا دائرہ اختیار لازمی طور پر یقینی طریقہ کار پر مبنی ہونا چاہئے۔ ہاں … خودکشی کے لئے اکسانے کا الزام جس سے سیاسی انتقام کا اظہار ہوتا ہے قابل ضمانت ہونا چاہئے لیکن جب اترپردیش پولیس ایک صحافی پرشانت کھنوجیا کی گرفتاری عمل میں لاتی ہے اور دو ماہ کے لئے جیل میں رکھتی ہے تب اس اصول کا ان پر اطلاق نہیں ہوتا۔ آپ کو بتادوں کہ پرشانت کھنوجیا نے ایودھیا میں رام مندر سے متعلق ایک ٹوئٹ کو ری ٹوئٹ کیا تھا پھر اترپردیش پولیس کو غصہ آگیا اور اس نے اس صحافی کو گرفتار کرکے دو ماہ تک جیل میں رکھا لیکن اس صحافی سے بھی جو سلوک کیا گیا اس پر بھی عدلیہ سوالات کے گھیرے میں آتی ہے۔ آپ کو اپوزیش کی زیرقیادت حکومت مہاراشٹرا کی جانب سے کئے جانے والے اقدامات میں ریاست کے اختیارات کا بیجا استعمال تو دکھائی دیتا ہے لیکن بی جے پی زیر قیادت اترپردیش میں اقتدار کا بیجا استعمال نظر نہیں آتا آخر کیوں؟ اگر آج کل درخواست ضمانتوں سے متعلق سنوائی اور اس پر عدالتی ردعمل کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان درخواستوں کی یکسوئی گرفتار شخص کے رتبہ کی بنیاد پر کی جارہی ہے اور جانبدارانہ سیاسی ماحول پیدا کیا جارہا ہے اور اسی ماحول کے زیر اثر سب کچھ ہو رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ قومی تحقیقاتی ایجنسی کے وکلاء نے اس درخواست کا جواب داخل کرنے کے لئے 20 دن کی مہلت مانگی۔ صرف پانی پینے کے لئے اسٹرا کے استعمال کی درخواست کا جواب دینے کے لئے تقریباً تین ہفتے طلب کیا جانا کیا کوئی مذاق نہیں ہے؟ کیا اس طرح کی حرکت سے بڑھ کر کوئی اور مذاق ہوسکتا ہے؟ اب ذرا تصور کیجئے کہ اگر سوامی ایک سیاستداں یا مشہور و معروف شہری ہوتے حقوق انسانی کے جہدکار نہیں ہوتے تو ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا جیسے کہ کئی مقدمات میں ہم اس کا مشاہدہ کرچکے ہیں۔ جب بھی کوئی سیاستداں یا بااثر شخصیت گرفتار ہوتی ہے تو اسے فوراً ایک اسپتال یا خصوصی سہولت میں اس شکایت پر منتقل کردیا جاتا ہے کہ اس کے سینے میں درد ہے۔ اس کے برعکس ایلگار پریشد کیس کے ایک اور 80 سالہ ملزم وراورا راؤ کے ساتھ بھی قانون دوہرا معیار اختیار کئے ہوئے ہے۔ جون 2018 میں ان کی گرفتاری عمل میں آئی وہ کئی ایک بیماریوں میں مبتلا ہیں اس کے باوجود نگہداشت صحت کی مناسب سہولتوں کے حصول کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔ اب کہیں جا کر بمبئی ہائی کورٹ نے انہیں ایک اسپتال میں منتقل کرنے کا حکم دیا ہے۔ آج ہمارے ملک کے فوجداری قانون کو لچکدار بنانے کی ضرورت ہے اور اسے دوہرے معیار سے پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایسا ملک ہے جہاں 70 فیصد قیدیوں کے مقدمات زیر سماعت ہیں۔ سال 2019 کے اختتام پر دیکھا گیا کہ ایک لاکھ سے زائد ایسے افراد ہیں جو ایک سال سے زیادہ عرصہ سے جیلوں میں بند ہیں اور ان کے مقدمات جاری ہیں یعنی وہ زیر دریافت قیدی ہیں۔ جیلوں میں گنجائش سے زائد قیدی رکھے گئے ہیں۔ اگر سیاستداں، صحافی اور وہ بھی اثر و رسوخ والے صحافیوں کی درخواستیں ضمانت چاہے تعطیلات کے ایام میں ہی کیوں نہ ہو فوری سماعت کے لئے پیش کردی جاتی ہیں تو پھر یہ قیدی چھوٹے چھوٹے مقدمات میں قطاروں میں کیوں ٹھہرنا چاہئے۔

سماج کے اہم اور اثر و رسوخ رکھنے والے شخصیتوں کے ساتھ خصوصی سلوک، مساویانہ شہری حقوق سے متعلق دستور کے بنیادی اصول کی سراسر خلاف ورزی۔ آج ساری قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ ہمارے ملک میں ایک ٹیلی ویژن اینکر کی شخصی آزادی کسی بھی عام آدمی یا عورت کی عام آزادی سے برتر کیوں ہے؟ آج تو ایسا لگتا ہے کہ بعض چیانلوں کے پرائم ٹائم ٹی وی اسٹوڈیوز اب چھوٹی عدالتوں میں تبدیل ہوگئے ہیں جہاں بے قصور لوگوں کے خلاف مقدمے چلائے جارہے ہیں اور بے قصور کو قصور وار قرار دیا جارہا ہے۔ جب اداکارہ ریاچکروتی پر اس طرح کے چیانلوں نے سشانت سنگھ راجپوت خودکشی کیس میں خوکشی پر اکسانے کے الزامات عائد کئے تب یہ سرخیاں دیکھنے کو ملیں کہ ریا چکروتی کو کب گرفتار کیا جائے گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا وہی نیوزی چیانل وہی قانون و قواعد کا خود پر اطلاق کرتے ہیں۔