شرارتوں کا وہی سلسلہ ہے چاروں طرف

,

   

نواب ملک … انتقامی سیاست کا شکار
امیت شاہ۔ مایاوتی ۔ آنکھ مچولی

رشیدالدین
اُتر پردیش چناؤ میں کامیابی کیلئے بی جے پی کو کیا کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ مرکزی حکومت کی سرگرمیوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ یو پی انتخابات دراصل زندگی اور موت کی لڑائی ہے۔ مرکز میں اقتدارکی برقراری کا انحصار اُتر پردیش کی کامیابی پر ہے۔ ’کرو یا مرو ‘ کی اس صورتحال میں بی جے پی ملک کی مختلف ریاستوں سے یو پی کی انتخابی مہم چلارہی ہے۔ حجاب کے مسئلہ پر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں تنازعہ، کرناٹک کے شموگہ میں بجرنگ دل کارکن کا قتل، اس کے بعد فرقہ وارانہ کشیدگی کے علاوہ نفرت پیدا کرتے ہوئے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کیلئے نت نئے موضوعات دراصل درپردہ یو پی الیکشن کی مہم کا حصہ ہے۔ تازہ ترین معاملہ میں مہاراشٹرا کابینہ میں این سی پی کے وزیر نواب ملک کی گرفتاری نے سیاست کو گرمادیا ہے۔ اُتر پردیش کی انتخابی مہم کے آغاز سے ہی مرکزی حکومت متحرک ہوگئی اور اپوزیشن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کا آغاز کردیا گیا۔ فرقہ وارانہ کشیدگی ہو یا پھر اپوزیشن قائدین کو نشانہ بنانا ان کے درپردہ مقاصد سے ہر کوئی واقف ہے۔ انسان کے زوال کا وقت قریب آجائے تو قدرت اُسے عقل سے محروم کردیتی ہے۔ کچھ یہی حال بی جے پی کا ہے۔ سیاسی طور پر زوال سے قبل بی جے پی اور اس کی قیادت کی عقل پر زوال آچکا ہے۔ شکست کے خوف سے بوکھلاہٹ کا شکار ہوکر بی جے پی اوچھی حرکتوں پر اُتر آئی ہے۔ دراصل بی جے پی کو اقتدار کا چسکہ لگ چکا ہے اور وہ اقتدار سے محرومی کے تصور سے بھی خوف کھارہی ہے۔ مرکز میں اقتدار کی برقراری کیلئے کانگریس زیر اقتدار ریاستوں کی حکومتوں کو غیر مستحکم کیا گیا۔ مدھیہ پردیش، راجستھان، کرناٹک کے بعد مہاراشٹرا کی مخلوط حکومت کو زوال پذیر کرنے کی سازش کی گئی۔ انتخابات سے عین قبل پنجاب میں امریندر سنگھ کے ذریعہ بغاوت کی حوصلہ افزائی کی گئی لیکن کانگریس حکومت کو گرانے میں ناکامی ہوئی۔ راجستھان اور مہاراشٹرا میں بھی سازش کامیاب نہ ہوسکی۔ غیر بی جے پی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کے تحت بنگال کی ممتا بنرجی حکومت کے خلاف گورنر اور تحقیقاتی اداروں کا استعمال کیا گیا۔ اسمبلی انتخابات میں بدترین شکست کے بعد ممتابنرجی حکومت کے 4 وزراء کو سی بی آئی کے ذریعہ گرفتار کرایا گیا لیکن عدالت سے راحت مل گئی۔ انتخابات کے دوران لالچ دے کر ترنمول کانگریس کے کئی قائدین کو بی جے پی میں شامل کیا گیا لیکن نتیجہ کے بعد وہ گھر واپس ہوگئے۔ مرکز میں برسراقتدار پارٹی کی جانب سے اپوزیشن کے خلاف جانچ ایجنسیوں کے استعمال کی روایت نئی نہیں ہے۔ 2014 سے قبل سی بی آئی کے استعمال کے معاملہ میں کانگریس بھی دودھ کی دھلی نہیں تھی۔ یو پی اے حکومت کے دوران سپریم کورٹ نے سی بی آئی کو حکومت کا طوطا قرار دیا تھا اور سیاسی حلقوں میں سی بی آئی کا نام ’’ کانگریس بیورو آف انوسٹی گیشن ‘‘ رکھا گیا تھا۔ 2014 کے بعد بی جے پی نے تمام حدوں کو پار کرتے ہوئے نہ صرف سی بی آئی بلکہ این آئی اے، انکم ٹیکس، نارکوٹکس کنٹرول اور انفورسمنٹ ڈائرکٹوریٹ کو مخالفین کے خلاف استعمال کرنا شروع کردیا۔ تحقیقاتی ایجنسیوں کے استعمال کے معاملہ میں بی جے پی نے گزشتہ 75 برسوں کے تمام ریکارڈ توڑ دیئے۔ جانچ اداروں کو بھگوا رنگ میں رنگ دیا گیا۔ بی جے پی یہ بھول رہی ہے کہ اقتدار کسی کیلئے دائمی نہیں ہوتا اور جس طرح رات کے بعد سورج کا طلوع ہونا یقینی ہے اُسی طرح ہر عروج کو زوال ہوتا ہے۔ کل جب آپ اپوزیشن میں ہوں گے تو ان اداروں کا آپ کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔ عہدیدار محض اقتدار اور حکومت کے وفادار ہوتے ہیں انہیں کسی فرد سے ہمدردی یا وفاداری نہیں ہوتی۔ اندرا گاندھی اور کئی قومی قائدین کی مثالیں موجود ہیں کہ جب تک کرسی پر رہے سلیوٹ کرنے والے عہدیداروں نے اقتدار ختم ہوتے ہی گرفتار کرکے پولیس اسٹیشن میں بند کردیا۔ اُتر پردیش میں انتخابی مہم کے دوران سماج وادی پارٹی قائدین اور ہمدردوں کی قیامگاہوں پر دھاوے کئے گئے۔ انکم ٹیکس کے دھاوؤں میں جب کچھ نہیں ملا تو اعظم خان کی رہائی میں رکاوٹ پیدا کردی گئی۔ ای ڈی کے استعمال کے تازہ معاملات منظر عام پر آئے ہیں۔ حال میں ریاستی وزیر انیل دیشمکھ کو نشانہ بنایا گیا اور اب نواب ملک کو گرفتار کیا گیا۔ دونوں کا تعلق این سی پی سے ہے۔ نواب ملک پر منی لانڈرنگ اور انڈر ورلڈ سے تعلقات کے الزامات ہیں۔ نواب ملک کے خلاف کارروائی کا اندازہ اُسی وقت ہوچکا تھا جب انہوں نے نارکوٹکس کنٹرول کے عہدیدار سمیر وانکھیڈے کی اصلیت عوام کے روبرو پیش کی تھی۔ شاہ رُخ خان کے فرزند آرین خان کو ڈرگس کیس میں جس طرح پھنسانے اور بھاری رقم وصول کرنے کے منصوبہ کو نواب ملک نے بے نقاب کیا تھا۔ سمیر وانکھیڈے کو عہدہ سے محروم ہونا پڑا اور تحقیقات کا سامنا کررہے ہیں۔ نواب ملک کا قصور بس اتنا ہے کہ مودی حکومت اور بی جے پی کے اشارے پر کام کرنے والے عہدیدار کی پول کھول دی۔ انیل دیشمکھ کے بعد نواب ملک کے خلاف کارروائی دراصل شیوسینا، این سی پی اور کانگریس مخلوط حکومت میں پھوٹ پیدا کرنا ہے۔ شیوسینا نے بی جے پی اور فرقہ پرستی دونوں کو ترک کرتے ہوئے سیکولرازم کو اختیار کیا جو بی جے پی کو ہضم نہیں ہورہا ہے۔ راست طور پر شیوسینا سے ٹکرانے کی ہمت نہیں ہے لہذا این سی پی کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے کیونکہ مخلوط حکومت کے اصل کرتا دھرتا شرد پوار ہیں۔ بی جے پی نے شرد پوار کو چھیڑ کر بڑی غلطی کرلی ہے اور اسے جوابی وار کیلئے تیار رہنا چاہیئے۔نواب ملک کی گرفتاری کے ساتھ ہی بنگال کی شیرنی ممتا بنرجی نے شرد پوار کو فون کرتے ہوئے بی جے پی سے مقابلہ میں تعاون کا یقین دلایا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف تحقیقاتی اداروں کے استعمال کے مسئلہ پر اپوزیشن میں پہلے ہی ناراضگی پائی جاتی ہے اور ممتا بنرجی اور شرد پوار کا اتحاد قومی سطح پر اپنا اثر ضرور دکھائے گا۔ یو پی انتخابات کے پس منظر میں نواب ملک کو نشانہ بناکر بی جے پی نے مسلم دشمنی کا مظاہرہ کیا تاکہ اس کا اثر اُتر پردیش کے ہندو رائے دہندوں پر پڑے۔ یوں تو ہر دور میں مسلمان آسان نشانہ رہے ہیں اور نواب ملک اسی ذہنیت کا شکار ہوگئے۔ بی جے پی نے مہاراشٹرا میں نواب ملک کو نشانہ بناکر سوتے ہوئے شیر ( شرد پوار ) کو جگادیا ہے۔ مودی حکومت نے انتقامی کارروائی میں گاندھی خاندان کو بھی نہیں بخشا۔ سونیا گاندھی اور افراد خاندان کی سیکوریٹی کم کردی گئی اور پرینکا گاندھی کے شوہر رابرٹ وڈرا کو اسکام میں پھنسا کر عدالت کے چکر کاٹنے پر مجبور کیا گیا۔ جس شخص نے اپنے سیاسی گرو کو کہیں کا نہیں رکھا اس سے دوسروں سے ہمدردی کی توقع کرنا فضول ہے۔ ایل کے اڈوانی نے مودی کو دہلی کا راستہ دکھایا لیکن احسان کا بدلہ انتقامی کارروائی کے ذریعہ دیا گیا۔ اپنے سیاسی اُستاد کو سیاسی گمنامی کے اندھیروں کی نذر کرنے والے مودی کے بارے میں مبصرین کا کہنا ہے کہ جو شخص اپنے محسن کا نہ ہوا وہ اپوزیشن کا ہمدرد کیسے ہوگا۔
کرناٹک کے شموگہ میں بجرنگ دل کارکن کے قتل کو فرقہ وارانہ رنگ دے کر مسلمانوں کی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اتنا ہی نہیں اس واقعہ پر احتجاج کو دیگر ریاستوں میں ہوا دے کر اکثریتی طبقہ کے ذہنوں میں مخالف مسلم جذبات پیدا کرنے کی کوشش کی گئی۔ جیسے ہم پہلے بھی کہہ چکے ہیں کہ کرناٹک ان دنوں ہندوتوا طاقتوں کیلئے تجربہ گاہ بن چکی ہے۔ شموگہ کے واقعہ کے بعد کرناٹک میں زعفرانی تنظیمیں متحرک ہوگئیں۔ ایک کارکن کی موت پر سارا ملک آسمان پر اُٹھالیا گیا لیکن وہ مسلمان کیا کریں جن کا خون گزشتہ 75 برسوں سے روزآنہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔ کیا مسلمان صرف ملک کیلئے خون بہانے کیلئے ہیں اور وہ دراصل بلڈ ڈونیشن کیمپ کے عطیہ دہندگان بن چکے ہیں۔ دوسری طرف اُتر پردیش میں شکست کے اشارے ملتے ہی امیت شاہ نے مایاوتی پر ڈورے ڈالنے شروع کردیئے۔ ایسا محسوس ہوا جیسے مایاوتی کو اس لمحہ کا انتظار تھا لہذا امیت شاہ اور مایاوتی میں آنکھ مچولی کا کھیل شروع ہوگیا۔ اُتر پردیش کے چار مرحلوں میں بی جے پی کے کمزور مظاہرہ کی اطلاع ملتے ہی امیت شاہ نے مایاوتی کی تعریف کی اور کہا کہ بی ایس پی کو مسلمانوں اور دوسروں کی تائید حاصل ہوگی اور یو پی انتخابات میں بہتر مظاہرہ رہے گا۔ دوسرے ہی دن مایاوتی نے امیت شاہ کی جوابی تعریف کی اور کہا کہ امیت شاہ کا بڑا پن ہے جو انہوں نے سچائی کو قبول کیا ہے۔ مایاوتی نے بھی مسلمانوں کی تائید کا دعویٰ کیا ہے۔ 7 مرحلوں کے اختتام کے بعد جب نتائج منظرِ عام پر آئیں گے اس وقت کا انتظار کئے بغیر امیت شاہ نے مابعد نتائج مفاہمت کی تیاری کرلی ہے۔ بی جے پی کو نشستیں کم حاصل ہوتی ہیں تو بی ایس پی کا ہاتھ تھام لیں گے اور مرکز کی حکومت میں بی ایس پی شامل ہوسکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اُتر پردیش کی سیاست میں اپنی اہمیت کھونے والی مایاوتی کو ملک کے نائب صدر جمہوریہ کے عہدہ کی پیشکش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ نائب صدر کا عہدہ بی جے پی کی تائید سے بڑا ہے۔ ویسے بھی مایاوتی سیاسی خلاء بازیوں کیلئے مشہور ہیں۔ ممتاز شاعر والی آسی نے کیا خوب کہا ہے ؎
شرارتوں کا وہی سلسلہ ہے چاروں طرف
کہاں چراغ جلائیں ہوا ہے چاروں طرف