شرح نمو 13.5 فیصد کیا ہے اور کیا چھپایا جارہا ہے

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

این ایس او نے پہلے سہ ماہی (اپریل ۔ جون) 2022-23ء کیلئے قومی مجموعی پیداوار کا تخمینہ گزشتہ چہارشنبہ کو جاری کیا۔ اس میں جو نمبر بہت نمایاں ہے، وہ شرح نمو 13.5% ہے اور اگر اس والیو ایڈیشن (GVA) کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ 12.7% بتایا گیا ہے۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ریٹنگ ایجنسیوں، بینکوں اور ریزرو بینک آف انڈیا کی جانب سے دیا گیا تخمینہ 13% سے لے کر 16.2% (آر بی آئی) کی حد میں ہے۔ اگر حقیقت میں کوئی نمبر اس حد میں آتا ہے تو میرے خیال میں یہ اطمینان کیلئے کافی ہے، تاہم اعداد و شمار کے آگے بھی ایک وسیع و عریض دنیا ہے۔ راقم کا یہ مضمون این ایس او کے ان نمبرات سے متعلق ہے جو ہمارے ملک کے کروڑہا عوام سے جڑے ہوئے ہیں جو ان کی حالت زار کا اظہار کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ وہ خوشحال ہیں یا بدحال پرسکون ہیں یا بے چین ہیں۔ یہ نمبرات ان کروڑوں لوگوں سے متعلق ہے جو حقیقی دنیا میں رہتے ہیں۔ یہ ایسے نمبرات ہیں جو یہ بتانے کیلئے کافی ہے کہ کون خوش ہے، کون خوشی سے کوسوں دُور ہے۔
میں نے ایک جدول تیار کیا ہے جس میں مالی سال 2019-20ء اور مالی سال 2021-22ء کے Corresponding Figures ہیں جن میں 2022-23ء کے پہلے سہ ماہی کے نمبرات جمع یا شامل کئے گئے ہیں۔ واضح رہے کہ چونکہ سال 2020-21ء کورونا وائرس کی عالمی وباء سے شدید متاثر رہا اور اس سال طویل مدتی لاک ڈاؤنس کا عوام نے مشاہدہ کیا اس لئے میں نے جدول میں اس برس کے اعداد و شمار کو شامل نہیں کیا۔ اپنے مضمون میں ہم نے 2019-20ء کو ایک نارمل سال بتایا ہے جبکہ سال 2021-22ء بحالی کا سال رہا جبکہ سال 2022-23ء ایسا سال ہے جس کے بارے میں امید ہے کہ اس سال مکمل طور پر بحالی ہوگی۔ ایسے میں تمام تر توجہ 2019-20ء، 2021-22ء اور 2022-23ء مرکوز کی جانی چاہئے۔
مزید براں یہ کہ ان اعداد و شمار کو ان لوگوں کے نقطہ نظر سے دیکھنا چاہئے جو متعلقہ شعبوں کی کارکردگی سے متاثر ہوں گے۔ مثال کے طور پر زرعی شعبہ، جنگلات اور سمکیات جیسے شعبے ملک میں بسے خاندانوں کی زندگیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ دوسری طرف کانکنی، قدرتی وسائل جیسے پتھروں کی کانکنی اور تعمیرات بہت اہم ہیں کیونکہ ان دو شعبوں سے مزدوروں کی کثیر تعداد وابستہ ہے اور یہ ایسے ورکرس ہیں جو کم مہارت کے حامل ہیں اور وہ زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں۔ ایک اور اہم بات یہ ہے کہ مالیاتی اور رئیل اسٹیٹ و پیشہ وارانہ خدمات بہت اہم ہیں کیونکہ ان شعبوں میں تعلیم یافتہ مہارت کے حامل اور وائٹ کالر ملازمین کی اکثریت ہوتی ہے۔ اگر ہم 2019-20ء کو بنچ مارک سال سمجھ لیں۔ اگر دیکھا جائے تو ایک ایسا ملک جو ترقی کی راہ پر گامزن ہے، اس کا تیزی کے ساتھ ترقی کرنا بہت ضروری ہے۔ جہاں تک جدول کا سوال ہے، آپ کو بتادیں کہ معیشت میں Constant Price کی اصطلاح بہت زیادہ استعمال ہوتی ہے۔ اس کا مطلب دراصل وہ طریقہ ہے جو آؤٹ پٹ میں آنے والی حقیقی تبدیلی کو جانچنا ہے اور اس میں سال کی بنیاد پر قیمتوں کی سطح کا اندازہ لگایا جاتا ہے چنانچہ پہلے سہ ماہی میں گراس والیوایڈیشن (اپریل۔جون) پیداوار میں آئی حقیقی تبدیلی کے لحاظ سے کچھ اس طرح رہی۔ زرعی جنگلات اور سمکیات کے شعبوں میں سال 2019-20ء کے دوران 448.703 کروڑ روپئے درج کی گئی۔ کانکنی اور معدنیات کے ذخائر کی کھدائی کے شعبہ میں 82.696 کروڑ روپئے ، تعمیراتی شعبہ میں 259.728 کروڑ روپئے، تجارت، ہوٹلوں، حمل و نقل اور مواصلات جیسے شعبوں میں 662.305 کروڑ روپئے، مالیاتی، رئیل اسٹیٹ اور پیشہ وارانہ خدمات میں 796.851 کروڑ روپئے درج کی گئی۔ سال 2021-22ء میں بالترتیب 472.258 کروڑ روپئے، 80.243 کروڑ روپئے، 225.166 کروڑ روپئے، 445.454 کروڑ روپئے، 805.847 کروڑ روپئے رہی۔ اسی طرح سال 2022-23 کے پہلے سہ ماہی میں زراعت ، جنگلات و سمکیات کے شعبہ میں 493.325 کروڑ روپئے، کانکنی و معدنیات کے ذخائر کی کھدائی کے شعبہ میں 85,423 کروڑ روپئے، تعمیرات کے شعبہ میں 262,918 کروڑ روپئے تجارت، ہوٹلوں، حمل و نقل اور مواصلات کے شعبوں میں 559.723 کروڑ روپئے، فینانشیل، رئیل اسٹیٹ اور پیشہ وارانہ خدمات کے شعبوں میں 880.318 کروڑ روپئے درج کی گئی۔
سال 2022-23 (فیصد میں) سال 2019-20 کے پہلے سہ ماہی میں جی وی اے Constant Prices کے لحاظ سے زراعت، جنگلات اور سمکیات کے شعبوں میں 9.9.% ، کانکنی اور کھدائی کے شعبوں میں 3.3% تعمیراتی شعبوں میں 1.2%، تجارتی ہوٹلوں، حمل و نقل اور مواصلات کے شعبوں میں 15.5%، فینانشیل، رئیل اسٹیٹ اور پیشہ وارانہ خدمات کے شعبوں میں 10.5% رہی جبکہ سال 2021-22ء میں یہ بالترتیب 4.5%، 6.5%، 16.8%، 25.7% اور 9.2% رہی۔ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2021-22ء میں معیشت کسی قدر بحال ہوئی جبکہ 2020-21ء میں کورونا وائرس کی وباء کے نتیجہ میں معاشی شعبہ میں کارکردگی مایوس کن رہی۔ نارمل سال 2019-20ء میں شعبہ جاتی ترقی آؤٹ پٹ کی سطح پر نہیں پہنچ سکی، سوائے زرعی شعبہ کے۔ یہاں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ مذکورہ اعداد و شمار کے مستقبل پر کیا اثرات مرتبہ ہوں گے، خاص طور پر روزگار یا ملازمتوں کی فراہمی کے معاملے میں کیا ہوگا، کسانوں اور زرعی مزدوروں کی حالت جوں کی توں رہے گی اور غیرزرعی ملازمتوں میں معمولی سا اضافہ ہوگا چونکہ کانکنی اور تعمیراتی شعبہ کا مظاہرہ 2019-20 کی بہ نسبت تھوڑا سا بہتر رہا جبک تک ایک مضبوط انداز میں مختلف شعبوں کا احیاء نہیں کیا جاتا۔ مہارت نہ رکھنے والے اور کم مہارت کے حامل ورکروں میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہوگی اور ہاں حکومت نے مینوفیکچرنگ شعبہ کو آگے بڑھانے کیلئے جو اقدامات کئے ہیں، وہ ناکافی دکھائی دیتے ہیں اور وہ اقدامات MSME شعبہ کے احیاء میں بالکل ناکام ہوگئے ہیں۔ مہارت کے حامل وائٹ کالر ورکروں کے مواقع میں اضافہ ہورہا ہے، لیکن خدمات کے شعبوں (تجارت اور ہوٹلوں وغیرہ) کا احیاء ابھی ہونا ہے، اسی طرح روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں۔
نوٹ : اگست میں بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 8.3% رہی۔ آر بی آئی نے 2022-23ء میں سہ ماہی بنیاد پر نمو کی شرح کا جو تخمینہ کیا ہے، وہ 16.2%، 6.2%، 4.1% اور 4.0% ہے۔ یہ بات نوٹ کریں کہ یہ گراف گر رہا ہے۔ ہم نے 13.5% کے ساتھ پہلے سہ ماہی کا آغاز کیا ہے جو آر بی آئی کے تخمینہ کی بہ نسبت کم ہے۔