شرح نمو 7.5 ہو یا نہ ہو ؟

   

پی چدمبرم
(سابق مرکزی وزیر داخلہ و فینانس)

ریزرو بینک آف انڈیا کا جو مینڈیٹ ہے وہ قیمتوں میں استحکام ہے یا مستحکم قیمتیں ہیں ، تاہم پائیدار شرح نمو سے متعلق مقصد کی تکمیل کیلئے اس نے اپنے مینڈیٹ کے موافق وہ دوسرے مرکزی بینکوں کی صف میں شمولیت اختیار کی ہے ایسے میں جب ریزرو بینک آف انڈیا معیشت کے نمو کی راہ ہموار کرتی ہے تو اس سے مذکورہ پالیسی یا حکمت عملی کو آگے بڑھانے میں مدد ملتی ہے ۔ معیشت کی ترقی اور شرح نمو کو بہتر بنانا حکومت کا فرض ہوتا ہے لیکن موجودہ حکومت اپنی تمام تر توجہہ ملک کی معاشی ترقی اور عوام کی خوشحالی کو یقینی بنانے کی بجائے اپنے سیاسی مقاصد کی تکمیل پر مرکوز کئے ہوئے ہے ۔ عالمی معیشت اور ہندوستانی معیشت کے سست نمو کی مدت سے متعلق جو تمام معلومات دستیاب ہیں اس کا آر بی آئی کے معاشی بلیٹن ( جولائی 2023) میں احاطہ کیا گیا ۔ اس بلٹن میں معاشی حالت پر ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں عالمی معیشت یا عالمی معاشی حالت کا حوالہ دیتے ہوئے کچھ یوں تحریر کیا گیا ہے ’’عالمی ترقی کو مستحکم کرنے اور اس کی رفتار کو تیز کرنے کیلئے مینوفیکچرنگ اور سرمایہ کاری پر زیادہ سے زیادہ توجہ دینا ضروری ہے ۔ ساتھ ہی عالمی تجارت بھی اس معاملہ میں اثرانداز ہوتی ہے ۔ عالمی معیشت کے نمو کو یقینی بنانے کیلئے مستحکم صنعتی و تجارتی پالیسیوں کو اپنانا ضروری ہے اس کے علاوہ سپلائی چینس کو بھی مستحکم کرنے کے اقدامات لازمی ہیں ۔ ایک مرتبہ پھر ملکوں کی معیشتیں مختلف راہیں اختیار کررہی ہیں ‘‘۔
ہندوستانی معیشت پر آر بی آئی کے بلیٹن میں ایسے مختلف شعبوں میں کامیابیوں اور پیشرفت کی فہرست دی گئی جن کا راست تعلق ملک کی معیشت سے ہے ۔ مثلاً بلیٹن میں اپ گریڈ شدہ بنیادی سہولتوں ڈیجیٹائزیشن ، شمسی توانائی کی پیداوار و گنجائش میں اضافہ ، برآمداتِ خدمات ، سازگار آبادیات ، پرجوش اکویٹی مارکٹس وغیرہ پر جو دعوے کئے گئے ہیں ان میں سے بعض دعوے سچ ہیں ، اس کے علاوہ بلیٹن میں یہ بھی بتایا گیا کہ MGNREGS کے تحت کام کی طلب میں تھوڑا سا اضافہ ہوا ہے۔ مینوفیکچرنگ برآمدات میں مالی مصارف میں Contraction دیکھا گیا ۔ بلیٹن کے مطابق محاصل یا ٹیکس وصولی میں گراوٹ آئی ہے ۔ سی پی آئی ( اور خوراک ) افراط زر میں اضافہ ہوا ہے ۔ گھریلو بانڈس اور صنعتی بانڈس کے نتائج سخت برآمد ہوئے ۔ بلیٹن میں افراط زر یا مہنگائی کے خلاف نہ ختم ہونے والی لڑائی کو بھی نوٹ کیا گیا ۔ اگر دیکھا جائے تو ہرچیز کے دو رُخ ہوتے ہیں اور ہمیشہ منفی اور مثبت پہلو دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ ملی جلی تصویر کے باوجود ہندوستان کی قومی مجموعی پیداوار ( حقیقی قدر پر مبنی قیمتوں پر ) کا معاملہ ہے ۔ ہمارے ملک نے 2004-2009 کے دوران 5 سالہ مدت کے دوران سالانہ اوسط شرح نمو 8.5 فیصد حاصل کی اسی طرح سال 2004-2014 ء دس سالہ مدت کے دوارن اوسط شرح نمو 7.5 فیصد درج کی گئی ۔ اس کے متضاد یا اس کے برعکس 2014 ء تا 2023 نو برسوں کے دوران سالانہ اوسط شرح نمو 5.7 فیصد رہی ۔ اب یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر اوسط شرح نمو اس مدت میں کیوں گر گئی ؟ آپ کو بتادیں کہ نمو کی شرحوں میں فراخدلانہ معاشی پالیسیوں اور مارکٹ کے موافق پالیسیوں کے ابتدائی برسوں میں زبردست اضافہ ہوا ۔ اسٹرائیڈس اور حکومت کی جانب سے معیشت کو بہتر بنانے اور عوام کو راحت پہنچانے کیلئے کئے گئے معاشی اقدامات Stimulus Packages نے شرح نمو بڑھانے میں غیرمعمولی مدد کی ۔ اس طرح غیرروایتی معاشی پالیسیوں کے فوائد جو امریکہ اور یوروپ میں عالمی مالیاتی بحران اور وبائی امراض کو دور کرنے کیلئے اپنائے گئے ہیں وہ فوائد ہندوستان جیسے ترقی پذیر ملکوں تک پہنچتے ہیں لیکن عام طورپر ساختی کمیوں اور ان کو دور کرنے کے اقدامات پر توجہ دی جاتی ہے جو اعلیٰ اقتصادی ترقی کو یقینی بنائے گی ۔
میرے خیال میں موجودہ حکومت نے معیشت کی بعض بنیادی کمزوریوں پر توجہہ نہیں دی، اُنھیں پوری طرح نظرانداز کردیا ۔ حکومت نے جن بنیادی کمزوریوں کو نظرانداز کیا ان میں مزدوروں کی کم شراکت اور حد سے زیادہ بیروزگاری سرفہرست ہے ۔ مثال کے طورپر ملک میں کام کرنے والی عمر کی آبادی (15 سال اور اس سے زائد ) کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ملک کی جملہ آبادی کا 51 فیصد ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ملک میں ورکنگ ایج گروپ 840 ملین نفوس پر مشتمل ہے اور کہا جارہا ہے کہ 2036 ء کے بعد اس میں گراوٹ آئے گی ۔ آج جو آبادی کا فائدہ ہے وہ طویل مدتی نہیں بلکہ مختصر مدتی ہے جبکہ جس تعلق سے بے چینی پائی جاتی ہے وہ مزدوروں کی شراکت کی شرح ( لیبر پارٹیسپیشن ریٹ (LPR) سے متعلق ہے ۔ جون 2023 ء میں LPR کم ہوکر 40 فیصد سے بھی کم ہوگیا ۔ ( اس کے برخلاف چین کا LPR ، 67 فیصد تھا ) اگر ہم خاتون محنت کشوں کے LPR کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انتہائی ابتر ہے جو 32.8 فیصد درج کیا گیا ۔ ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ آخر 60 فیصد ورکنگ پاپولیشن ( کام کرنے والی آبادی بشمول مرد و خواتین ) اور 67.2 فیصد خواتین کام نہیں کررہی ہیں یا روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں) ؟ اب بیروزگاری کی 8.5 فیصد شرح کا LPR پر اطلاق کیجئے ( 15 تا 24 سال عمر کے مرد و خواتین میں بیروزگاری کی شرح ) تب آپ کو غیراستعمال شدہ انسانی وسائل کی وسعت کا ایک اندازہ ہوگا ۔ اگر دیکھا جائے تو دورِ حیات یا عمر میں اضافہ اور تعلیم کے پھیلانے کو دیکھا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگر پورے 60 فیصد کام کرنے کے اہل نہیں ہیں یا تیار نہیں ہیں تو ان کا کوئی مصرف ہی نہیں جبکہ ہندوستانی معیشت چار پہیوں میں سے دو پر چل رہی ہے ۔
معیار تعلیم : اب بات کرتے ہیں معیارِ تعلیم کی ۔ اینول اسٹیٹس آف ایجوکیشن رپورٹ (ASER) دراصل قومی سطح پر گھر گھر پہنچکر کیا جانے والے سروے ہے جس میں دیگر چیزوں کے ساتھ ساتھ دیہی ہندوستان میں بچوں کے سیکھنے کے نتائج کا احاطہ کیا گیا ہے ۔ ASER 2020 کے ذریعہ ملک کے تمام دیہی اضلاع تک رسائی حاصل کی گئی ۔ ذیل میں بچوں کے پڑھنا ، ریاضی اور انگریزی سیکھنے کے بارے میں جو نتائج آئے ہیں ان کے مطابق تیسری جماعت میں زیرتعلیم ایسے طلبہ جو دوسری جماعت کے اسباق پڑھ سکتے ہیں ان کی تعداد 70.5 فیصد ہے اسی طرح دوسری جماعت کی بنیادی ریاضی پڑھنے کے قابل طلبہ کی تعداد 25.9 فیصد بتائی گئی ۔ اسی طرح تیسری جماعت کے وہ طلبہ جو دوسری جماعت کی انگریزی بآسانی پڑھ سکتے ہیں ان کی تعداد ( عدم دستیاب ہے ) دوسری طرف پانچویں جماعت کے ایسے طلبہ جو دوسری جماعت کی ریاضی پڑھنے کے قابل ہیں ان کی تعداد 42.8 فیصد بتائی گئی ہے جبکہ ایسے طلبہ جو دوسری جماعت کی انگریزی باآسانی پڑھ سکتے ہیں ان کی تعداد 25.6 اور دوسری جماعت کی ریاضی پڑھنے کے قابل پانچویں جماعت کے طلبہ کی تعداد 24.5 فیصد ظاہر کی گئی ہے ۔ تعلیم کے لحاظ سے دیکھا جائے تو ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں کافی تفاوت پایا جاتا ہے ۔ ہندوستان میں اسکولی تعلیم کے اوسط سال 7.8 برس ہیں ایسے میں ہم اپنے بچوں کو وہ ملازمتیں اور روزگار کیسے دلائیں گے جو لرننگ اور ٹکنالوجی کے متقاضی ہوتے ہیں ۔ دوسری جانب معاشی سروے 2022-23 ء میں صاف طورپر کہا گیا کہ زرعی پیداوار میں کمی آئی ہے ۔
ہندوستان میں چاول کی پیداوار فی ہیکٹر 2718-3521 کلوگرام ریکارڈ کی گئی جبکہ گیہوں کی پیداوار فی ہیکٹر 3507 کلوگرام درج کی گئی اس کے برعکس چین میں سال (2022) کے دوران چاول کی پیداوار فی ہیکٹر 6500 کلوگرام اور گیہوں کی پیداوار 5800 کلوگرام رہی ۔اسی طرح ہندوستان چاول اور گیہوں کا ایک اکسپورٹر بن گیا جو اطمینان کا باعث ہوسکتا ہے ۔ اب آگے بڑھتے ہیں ماحولیاتی تبدیلی ، شہروں کی طرف ہجرت ، شہریانے کے عمل کا فروغ ، پانی کی دستیابی اور پیداوار کی بڑی قیمتوں کی جانب ان سب کا مطلب اگر زراعت کو انتہائی اہمیت کا حامل اور فائدہ بخش بنائے رکھنا ہے تو فی ہیکٹر پیداوار میں اضافہ کرنا ضروری ہے ۔ اس طرح افراطِ زر پر قابو پانے اور معاشی پالیسیوں پر توجہ دینا ضروری ہے لیکن عزت مآب وزیراعظم اور متعلقہ وزیر کی زبان سے آپ نے ان ساختی نقائص کے بارے میں کبھی کچھ سنا ہے ؟ ہرگز نہیں ۔