شرد پوار مخلوط سیاست کا بے مثال لیڈر

   

Ferty9 Clinic

راج دیپ سردیسائی
چند ہندوستانی سیاستدانوں کو سمجھنا لگ بھگ ناممکن ہے جیسا کہ شردپوار کا معاملہ ہے۔ ممبئی میں دیرینہ سیاسی کہاوت ہے کہ ’’پوار سوچتا کیا ہے، وہ کہتا کیا ہے، اور وہ کیا کرتا ہے، یہ تین بالکلیہ مختلف چیزیں ہیں‘‘۔ یہی بات شاید وضاحت کرسکتی ہے کہ کیوں ہنوز کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا کہ گزشتہ ماہ مہاراشٹرا میں زبردست سیاسی ڈرامہ میں پوار کا قطعی رول کیا رہا۔ کیا نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) لیڈر واقعی ان مذاکرات سے لاعلم تھے جو اُن کا بھتیجہ اجیت پوار بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ساتھ کررہا تھا۔ یا وہ مہاراشٹرا کے دونوں اعلیٰ سیاسی گوشوں سے تال میل قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ کون ان کو بہترین معاملت فراہم کرے گا؟ پوری سچائی کا شاید کبھی انکشاف نہیں ہوگا، لیکن یہ واضح ہے کہ 80 سال کی عمر کی طرف بڑھ رہے پوار نے مہاراشٹرا کے پیچیدہ شطرنج کے کھیل میں حقیقی شطرنج کا کھلاڑی ہونا ثابت کیا ہے۔
عجیب بات ہے کہ چند ماہ قبل ہی پوار کو لگ بھگ پوری طرح نظرانداز کردیا گیا تھا۔ ان کی پارٹی منتشر ہورہی تھی… زائد از ایک درجن قائدین اور ایک این سی پی رکن پارلیمنٹ نے انتخابات سے قبل وفاداریاں بدل لئے تھے… اور حتیٰ کہ ان کی فیملی بھی اختلافات سے منقسم نظر آرہی تھی۔ پوار کو انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کی فرسٹ انفرمیشن رپورٹ (ایف آئی آر) میں نامزد کیا گیا، ایسا اقدام جو شاید دیویندر فڈنویس کی سب سے بڑی غلطی سمجھی جاسکتی ہے۔ اس نے عملاً ڈھلتی عمر والے علاقائی سردار اور مہاراشٹرا سیاست کے اُبھرتے اسٹار کے درمیان کھلی جنگ چھیڑ دی۔
سچائی یہ ہے کہ پوار کبھی ریاست گیر سطح کے اس طرح عوامی لیڈر نہیں رہے جیسا نیشنل میڈیا انھیں پیش کرتی ہے۔ ان کا بنیادی گڑھ ان کے مغربی مہاراشٹرا کے قلعہ تک محدود رہا ہے، جہاں انھوں نے اپنے زرعی مراٹھا طبقہ پر کنٹرول رکھا ہوا ہے۔ لیکن انھوں نے کبھی بھی، مثال کے طور پر، کانگریس کی قیادت کی، یا این سی پی کو ہی مہاراشٹرا میں اکثریتی جیت دلائی ہے، وہ اکثر و بیشتر علحدگی اور اختلاف کا فائدہ اٹھاتے رہے اور مابعد چناؤ معاملتوں کے ذریعے ریاست میں اپنی پوزیشن مضبوط کی ہے۔اور نہ ہی وہ اپنے اثر کو مہاراشٹرا کے آگے وسعت دینے میں کامیاب رہے ہیں۔ وزیراعظم بننے اُن کی بار بار کوششوں کو دہلی دربار کے بازنطینی اقتدار کی گلیاریوں نے ناکام بنایا ہے۔ تاہم، پوار بے تکان، سوجھ بوجھ کے حامل، اور ہوشیار سیاسی مذاکرات کار رہے ہیں، جس نے اس مقولہ کے مطابق زندگی گزاری ہے کہ ’’سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دشمن نہیں، مگر مستقل مفادات ہیں‘‘۔
اس کہاوت نے انھیں تمام پارٹیوں میں دوستوں اور حلیفوں کا وسیع نٹ ورک استوار کرنے کے قابل بنایا۔ جب وہ 2015ء میں 75 سال کے ہوئے، نریندر مودی سے لے کر سونیا گاندھی تک ساری سیاسی برادری جمع ہوئی۔ وہی سونیا گاندھی جن کا بیرونی نژاد موقف پوار کی 1999ء میں کانگریس چھوڑ جانے کا موجب بنا تھا، لیکن اُن ہی کے ساتھ پوار نے مہاراشٹرا اور مرکز میں کسی پس و پیش کے بغیر اتحاد قائم کیا ہے۔ شخصی اور نظریاتی تفریقوں سے آگے نکلنے کی یہی صلاحیت ہے جس نے ’’پوار پاور‘‘ کو اتنے برسوں سے سیاسی طور پر قائم رکھی ہوئی ہے۔ ایک لحاظ سے وہ حقیقی مخلوط۔ دور کے سیاستدان ہیں۔ 1978ء میں مہاراشٹرا میں اُن کی پروگریسیو ڈیموکریٹک فرنٹ زیرقیادت نے تب کے جن سنگھ اور سوشلسٹوں کو ایک چھت تلے لاکھڑا کیا تھا۔ اور جہاں شیوسینا ظاہر طور پر سیاسی حریف رہی، پوار نے کبھی سینا کے بانی بال ٹھاکرے کو ایک حد سے آگے نشانہ نہیں بنایا تھا۔ چاہے باہمی احترام کے سبب ہو یا باہمی سہولت وجہ ہو، پوار۔ ٹھاکرے کی ترکیب مصالحت کی سیاست کا ثبوت ہے جو مہاراشٹرا کے طول و عرض میں نمایاں ہوئی ہے۔ مغربی بنگال یا ٹاملناڈو کے برعکس، جہاں شدید انفرادی رقابتیں دیکھنے میں آئیں اور سیاسی حریفوں کو رُسوا کیا گیا بلکہ جیل میں تک ڈال دیا گیا، مہاراشٹرا کی سیاست کچھ لینے اور کچھ دینے کی معاملت سازی کے اطراف چلتی رہی ہے۔
کچھ حد تک فڈنویس۔ امیت شاہ۔ مودی کی حد درجہ جارحانہ اور اپنے مفادات کے حصول میں ہرگز مفاہمت و مصالحت نہ کرنے کی نہایت مسابقتی طرز سیاست نے مہاراشٹرا کے نسبتاً مستحکم ماحول کو درہم برہم کردیا۔ سیاسی حریفوں کے خلاف کرپشن کے الزامات اور ایف آئی آر درج کرانے پر سیاسی طبقہ میں یکایک خوف کا عنصر اُبھر آیا۔ وہ جو بی جے پی میں شامل ہوگئے، انھیں ’’حفاظت‘‘ کی طمانیت دے دی گئی، جبکہ بی جے پی سے دوری برقرار رکھنے والوں کو انفورسمنٹ حکام کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ عدم سلامتی بلکہ عداوت سے بھرا ماحول پیدا کیا گیا جہاں بی جے پی کی دیرینہ حلیف شیوسینا اس نتیجے پر پہنچی کہ اُن کی برسراقتدار مخلوط پارٹنر اُن کا صفایا کردینے کے درپے ہے۔ جیسا کہ کانگریس کے ساتھ ہوا، جو امیت شاہ کی شیخی ’’کانگریس مکت بھارت‘‘ پر بے چین ہوگئی۔ یہی ’’خوف کا عنصر‘‘ ہے کہ پوار حالات کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوئے، اور ایسا مخلوط ممکن بنایا جو تب نہایت قیاسی پراجکٹ معلوم ہوتا تھا جب انتخابی نتائج کا اعلان کیا گیا تھا۔
یہ مخلوط مخالف مودتوا نہیں ہے بلکہ مودی۔ شاہ۔ فڈنویس کی تگڑی کے ’’خوف‘‘ نے اس کی تشکیل پر مجبور کیا اور ایسی سیاسی پارٹیاں یکجا ہوگئیں جن میں بہت کم مشترک ہے، اس کے سواء کہ بقاء کیلئے خالص جستجو ہے۔ آیا مہاراشٹرا اتحاد دیرپا رہتا ہے یہ غیریقینی ہے لیکن اتنا ضرور واضح ہے کہ علاقائی پارٹیوں نے سب پر حاوی بی جے پی کو خوفزدہ کرنے کا آئیڈیا تلاش کرلیا ہے۔
وزیراعظم یوں تو ’’امداد باہمی پر مبنی وفاقیت‘‘ کی باتیں کرتے ہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ بی جے پی نے علاقائی قوتوں کا سیاسی قد گھٹانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، جس کے نتیجے میں شکستہ تعلقات رونما ہوئے ہیں۔ یہ چیز مودی۔ 1 میں تلگودیشم پارٹی کے ساتھ ہوئی، اور اب مودی ۔ 2 میں سینا کے ساتھ ایسا ہی ہوا ہے۔
بی جے پی کے دو بڑے قائدین کو شاید سیاسی چانکیہ باور کیا جاسکتا ہے لیکن ’’چانکیہ نیتی‘‘ چھوٹی پارٹیوں کو دھمکیوں اور انھیں خوف دلانے پر مبنی نہیں ہوسکتی۔ اس کیلئے انا کو ٹھیس پہنچنے کے باوجود ہوشیاری سے کام کرنے اور کسی حد تک ’دو اور لو ‘ کی پالیسی اختیار کرنا پڑتا ہے، نہ کہ لوگوں کو دھمکا کر مطیع بنایا جائے۔ سرکاری اداروں کی مدد سے نشانہ بنانے کا رجحان جس میں مملکتی اقتدار کو سیاسی حریفوں کو کچلنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے، اس سے شبہات اور دشمنی پیدا ہوتے ہیں۔ یہیں پر شاہ۔ مودی شاید پوار کے طرز کی سیاست سے کچھ سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اخلاقی اصول سے قطع نظر عملی سیاست محض دھونس جمانے کا نام نہیں بلکہ زیادہ تر رغبت بھی دلانا پڑتا ہے۔
اختتامی تبصرہ
مہاراشٹرا میں انتخابی مہم کے موقع پر میں نے پوار سے دریافت کیا کہ آیا انھوں نے کبھی ریٹائرمنٹ کے بارے میں غور کیا ہے۔ اُن کے جواب کا مفہوم یوں رہا کہ یہ قابل غور نکتہ نہیں، جیسا کہ انھوں نے کہا: ’’ابھی تو میں جوان ہوں!‘‘ ساری بات کا خلاصہ: سیاست میں نوجوانی کا دائمی عنصر اقتدار کا چسکا ہے۔
[email protected]