شمالی ہند میں بارش کا قہر گودی میڈیا کی زبان بند

   

روش کمار
دفتر وزیراعظم کا ٹوئیٹ آیا ہے منی پور کے بارے میں نہیں آیا جہاں ہنوز تشدد جاری ہے ، بارش پر آیا ہے جس میں کہا گیا ہیکہ ملک کے مختلف مقامات پر بارش کی خطرناک صورتحال پر وزراء اعلی عہدہ داروں سے بات چیت کی گئی ۔ مقامی انتظامیہ این ڈی آر ایف ایس ڈی آر ایف کی ٹیمیں بارش سے متاثرہ علاقوں میں حالات معمول پر لانے کیلئے کام کررہی ہے ۔ امید ہیکہ وزیراعظم کے اس ٹوئیٹ سے آپ کو پختہ تیقن مل گیا ہوگا ۔ بارش سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو اجلاس کی خبریں دی جانے لگی ہیں ، دی جانی بھی چاہئے۔ کنٹرول روم میں جانے کی اطلاع بھی اس میں شامل ہے۔ میڈیا کوریج میں آپ چیف منسٹر کو کنٹرول روم میں جاتے ہوئے دیکھیں گے ٹوئیٹر پر لوگوں کو چلاتے نہیں گے کہ ان کے علاقہ کی سڑکوں کا یہ حال ہے اور وہ حال ہے ۔ کبھی یہ سوال کیجئے گا کہ کیا سوشیل میڈیا پر آنے والی آوازیں اس کنٹرول روم میں بھی آرہی ہوتی ہیں جس وقت چیف منسٹر ہوتے ہیں وہ بھی ٹھیک سے آپ کو نہیں بتایا جاتا ہے ۔ چار کمپیوٹر ، پچاس فون کی تصویر آپ کو دکھا دی جاتی ہے کہ چیف منسٹر کنٹرول روم کا دورہ کرنے گئے ہیں یعنی معاملہ بہت سنگین ہے اس طرح سے بارش میں خبریں دھل کر آپ تک پہنچائی جارہی ہیں یا آرہی ہیں ویڈیو میڈیا کی رپورٹنگ اور ان آفات کے وقت آپ کے سوالات پر ہے ضرور سینئے اور پڑھئے گا ۔ شمالی ہند میں صرف چند دن کی بارش سے تقریباً 100 لوگوں کے مرنے کی خبر ہے ۔ ہماچل پردیش میں صرف دو دن میں سیلاب سے 80 لوگوں کی موت ہوگئی ۔ پچھلے دو ہفتوں سے ہورہی موسلادھار بارش کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد 100 سے تجاویز کرچکی ہے 8 لوگ لاپتہ ہے ۔ گزشتہ چند گھنٹوں میں بارش سے جڑے واقعات میں 34 لوگوں کی موت ہوگئی ۔ راجستھان میں دو دن میں 7 لوگ اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے ۔ پنجاب ، ہریانہ میں 9 لوگ مرگئے ۔ ہماچل پردیش میں دو ہفتوں میں 80 سے زائدلوگوں کی موت ہوگئی اور 8 لاپتہ ہیں یہ صرف تعداد یا اعداد و شمار ہیں میڈیا رپورٹ کو اسکیان کرتے وقت اپنی زندگیوں سے محروم لوگوں کی کہانی کا پتہ نہیں چلا ۔ میڈیا ہمیں یہ نہیں بتاتا کہ بارش کے باعث مارے گئے یہ لوگ کون تھے ؟ ان کے گھر کیسے تھے ؟ اب ان کے خاندانوں کا کیا ہوگا ؟ میڈیا کا مطلب مین اسٹریم میڈیا ( قومی میڈیا ) کے ایک مخصوص حصہ سے ہے ۔ آپ کو ایک تعداد بتادی جاتی ہے جیسے موت آدمی کی نہیں تعداد کی ہوتی ہے۔ اسی طرح ہر تباہی کے بعد ہم شہریوں کی سمجھ بھی وہی رہ جاتی ہے دس لوگ مرے ہیں ستر لوگ مرے ہیں یا بالاسور ریل سانحہ میں 280 لوگ مرے ہیں ان نمبروں کی مدد سے میڈیا آپ میں ان اموات سے ہونے والے غم کے جذبات کو ختم کردیتا ہے کیونکہ اگلی سطر میں پھر سے نمبر آنے لگ جاتا ہے حال ہی میں دلی ایرپورٹ پر 20 پروازیں منسوخ کردی گئیں 120 پروازیں تاخیر سے روانہ ہوئیں ۔ چندی گڈھ سے دس پروازیں منسوخ ہوگئیں اس طرح کے نمبر آتے ہیں ۔ دہلی امبالہ روٹ پر چلے والی 24 ٹرینیں منسوخ کردی گئیں ۔ اب آپ ان نمبروں کو دوبارہ دیکھئے گا ٹرین اور طیاروں کے منسوخ ہونے کی تعداد اور مرنے والوں کی تعداد میں کوئی فرق نظر نہیں آئے گا ۔ مرنے والا جب غریب ہوگا وہ صرف ایک نمبر ہی ہوگا ۔ بالاسور ریل سانحہ میں 280 سے بھی زائد جو لوگ مرے۔ آپ نے گودی میڈیا کے کتنے چیانلوں پر مرنے والوں کے خاندانوں کی کہانی سانحہ کے بعد یا اس کے دوران دیکھی ۔ اپنوں کو تلاش کرنے کی پریشانی دیکھی اس لئے کم دیکھی یا نہ کہ برابر دیکھی کیونکہ وہ لوگ غریب لوگ تھے ۔ جنرل بوگی میں سفر کرنے والے لوگ تھے ۔ ہم آپ کو بتانا چاہتے ہیں کہ آفات سماوی کو کوریج کرنے کیلئے ہمارے پاس درکار وسائل نہیں ہیں جو ویڈیوز ہیں وہ بہت محدود ہیں کچھ شہروں کے ہیں مگر ہم ان ہی کے سہارے آپ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں تاکہ آپ سیلاب کے کوریج اور سیلاب کے باعث اور اس کے اثر کو ٹھیک سے سمجھ سکیں ۔ شہروں کے بارے میں ہماری سمجھ کتنی ادھوری ہے اسی سے پتہ چلتا ہے جب بارش میں شہر ڈوب جاتے ہیں ۔ سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں ، دھنس جاتی ہیں چٹانیں کھسکنے لگتی ہیں ،زمینی تودے گرجاتے ہیںپر ہمارا میڈیا کہنے لگ جاتا ہے کہ گروگرام یا یہ وہ شہر وینس بن گیا فلاں شہر وینس بن گیا آپ کو پتہ ہونا چاہئے کہ وینس شہر جولائی میں کسی ایک دن کی بارش سے نہیں بتا ہے ۔ نالوں کے جام ہونے اور سڑکوں پر گڈھے ہونے پانی بھرنے سے وینس نہیں بھرتا ہے آپ دیکھ ہی رہے ہوں گے کہ میڈیا کے کوریج میں پہاڑوں کا کوریج کتنا کم ہے دہلی اور گروگرام کا کتنا زیادہ ہے ۔ جہاں زیادہ ہے اس کا کوریج بھی کتنا آدھا آدھا اور ادھورا ہے ویسے بھی سیلاب آسام میں بھی آیا ہر سال آتا ہے لیکن اس کا کوریج نہیں ہوتا ہے ۔ ہماچل پردیش میں سیلاب کی صورتحال یہ ہیکہ 736 سڑکوں کو بند کرنا پڑا ، زمینی کٹاؤ کے بے شمار واقعات پیش آئے آپ اگر پچھلے سال کی اسی ریاست کی خبروں کو سرچ کریں گے تو پتہ چلے گا کہ اس ریاست میں آفات سماوی کی حالت گذرتے وقت کے ساتھ بھیانک اور سنگین ہوتی جارہی ہے ہر سال ہوتی جارہی ہے اس میں انسانوں کی غلطیوں کا ہی اہم کردار ہے انتظامیہ کی ہم جو بات کرتے ہیں وہ بھی تو انسانوں کا بنا ہوا ایک یونٹ ہے تو بارش کا قہر بہت خطرناک ہے مگر اس کی رپورٹنگ دو چار شہروں تک ہی محدود ہے جو رپورٹر گراؤنڈ رپورٹنگ کیلئے دہلی یا اطراف و اکناف کے شہروں میں بھیجے گئے ہیں وہ صرف گھٹنوں سے پانی کی سطح ناپ رہے ہیں ۔ مسائل کی گہرائی آپ کو بتانے سے گریز کررہے ہیں ۔ نومبر 2022 کی ایک خبر کا ذکر کرتا ہوں ہریانہ کے چیف منسٹر کا بیان تھا کہ گروگرام کو اسمارٹ سٹی کے منصوبہ میں نہیں رکھا گیا ہے کیونکہ ریاستی حکومت اسے اسمارٹسٹ بنائے گی تب انہوں نے141 کروڑ روپئے مالیتی پراجکٹس کے اعلانات کئے تھے اور سنگ بنیاد بھی رکھا تھا ۔ اول تو جن شہروں کو اسمارٹ سٹی کی فہرست میں رکھا گیا ہے ان کا ہی حال دیکھ لیجئے لیکن کیا گروگرام Smartest City بن گیا ہے گروگرام میں جو لوگ رہتے ہیں ٹریفک جام میں گھٹنوں بیٹھنے رہنا پڑتا ہے رہنا ہی پڑے گا ان کا یہ دکھ پہاڑ کے نیچے دب کر مرگئے لوگوں کے غمزدہ خاندانوں سے کتنا زیادہ ہے اور کتنا بڑآ کر کے دکھایا جارہا ہے پھر یہ ٹوئیٹر پر کیوںآر رہے ہیں کیا ان کا وہ میڈیا نہیں آرہا ہے ان کی مدد کیلئے ان کے اپارٹمنٹ میں جن پر وہ دن رات مسلم دشمن مباحوں کو دیکھ کر اپنے میں فخر کے جذبات محسوس کرتے ہیں ۔ کچھ لوگ سوالات کرتے رہتے ہیں پر ان لوگوں کا گروگرام میں رہنے والے لوگوں کا ہمیشہ ساتھ نہیں ملتا ہے تو ٹوئیٹر پر سوالات کرتے رہتے جتنا لکھ سکتے ہیں لکھے رہے ہیں کیونکہ ٹوئیٹر پر جام نہیں لگتا ہے ۔ جام لگتا ہے سڑکوں پر وہاں جہاں آپ رہتے ہیں جس کا نام گروگرام ہے یا دہلی ہے یا پنچکولہ ہے یا چندی گڑھ ہے آخر ہم کتنی بار گروگرام میں پانی بھرجانے کو لیکر ہائے تویہ کریں گے اور اس سے مسئلہ کا کیا حل نکل پارہا ہے ؟ لوگوں کے تبصروں کو دیکھ کر سوال کر نے کا جی چاہتا ہے کہ کیا وہ ایک دو دن کیلئے ہی ہائے ہائے کررہے ہیں یا پھر یہ مسئلہ کیوں ہے اور اسے مسئلہ بتانے کیلئے ایک طویل عرصہ سے آواز اُٹھانے کی تیاری کررہے ہیں گروگرام میں 2016 میں بارش کی تباہی آئی اس سال کی بارش نے لوگوں کو ڈراو یا لوگ اپنے شہر کو ملینیم کہلانے پر کوسنے لگے اس سال بہت بڑے بڑے اعلانات کئے گئے اور کہا گیا کہ شہر کے بنیادی ڈھانچے کو تبدیل کیا جائے گا لیکن گروگرام کے لوگوں نے دیکھا کہ یہ اعلانات صرف اعلانات تک محدود رہ گئے 2016 کے بعد 2018 اور 2017 میں بھی گروگرام کو بارش نے اپنے قہر سے تباہ کیا لیکن آپ خاموش رہے ایسے میں کوئی بھی مسئلہ کیسے حل ہوگا ؟ اور یاد رکھئے ہر سال یہ مسئلہ برقرار رہے گا اور آپ ( عوام ) ہائے ہائے ہی کرتے رہیں گے ۔ گودی میڈیا سال بھر مسلم مخالف مباحث میں مصروف رہتا ہے ۔ ان دنوں سوال پوچھ رہا ہے کہ گروگرام میں انتظامیہ ہے بھی یا نہیں ؟ یا ہے تو کہاں گیا ؟ تو بھائی آپ نے سال بھر بارش کی تیاری کو لیکر انتظامیہ کی کتنی خبر لی کہ وہ کیا کررہا ہے سورہا ہے یا جاگ رہا ہے جو میڈیا منی پور جاکر گراونڈ رپورٹنگ نہیں کرسکتا اس کے رپورٹر گروگرام جاکر انقلابی سوال پوچھ رہے ہیں اور اس سوال میں بھی بے ایمانی ہے انتظامیہ کو لیکر سوال اٹھارہے ہیں ریاستی حکومت کو لیکر نہیں ۔ زیادہ رپورٹرس کی زبان پر موسم کا قہر ہے انظامیہ اور ریاستی حکومتوں کی ناکامی نہیں ۔