شمس الرحمن فاروقی کا انتقال ایک روشن آفتاب کا اچانک غروب ہو جانا ہے :پروفیسر اخترالواسع

   


نئی دہلی : پروفیسر شمس الرحمن فاروقی کی موت اردو زبان و ادب کے ایک عہد کا خاتمہ ہے ۔ ان کی موت سے ہمارے بیچ میں ایک روشن دماغ نہ رہا۔ان خیالات کا اظہار مولانا آزاد یونیورسٹی جودھپور کے صدر اور دہلی اردو اکیڈمی کے سابق وائس چیئرمین پروفیسر اخترالواسع نے کیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ وہ اردو ادب میں جدیدیت کا سب سے نمایاں نام تھے ۔ انہوں نے اپنی تنقیدی نگارشات کے ذریعہ اردو ادب میں ایک نئے تنقیدی رویے کی داغ بیل ڈالی۔ اپنے ادبی رسالے شب خون کے ذریعے انہوں نے ہماری ادبی صحافت کو ایک نئی سمت اور رفتار ہی عطا نہیں کی بلکہ اپنی سرپرستی میں اردو زبان و ادب کو نئے تخلیق کاروں کی ایک مؤقر اور معتبر تعداد فراہم کی۔ انہوں نے اردو فکشن میں اپنی تخلیقات سے گہرے نقوش اور اثرات مرتب کیے ۔ پروفیسر واسع نے کہا کہ وہ ایک ایسے نابغہ عصر تھے جن کی نظر مغرب اور مشرق کے کلاسیکی اور جدید ادبی سرمایے اور رجحانات پر غیرمعمولی تھی۔پروفیسر واسع نے کہا کہ جو آیا ہے تو اسے جانا ہی ہے لیکن شمس الرحمن فاروقی کا سانحہ ارتحال بالکل ایسا ہے جیسے زبان و ادب کے روشن افق پر اچانک ایک آفتاب غروب ہو گیا ہو۔ ہم ان کے پسماندگان اور تمام اردو والوں سے اظہار تعزیت کرتے ہیں اور خدائے بزرگ و برتر سے ملتمس ہیں کہ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے ۔