میتھی کی بھاجی، ناریل اور موز کی کاشت، حکام خاموش تماشائی
حیدرآباد 29 ڈسمبر (سیاست نیوز) اراضیات پر غیر مجاز قبضہ کرنے والوں نے کھلی اراضی پر قبضہ جمانے میں کوئی موقع جانے نہیں دے رہے ہیں۔ حتیٰ کہ شمشان گھاٹ ہو یا پھر قبرستان کی کھلی اراضی کیوں نہ ہو اس کو بھی بخشا نہیں جارہا ہے۔ ان اراضیات پر غیر مجاز قبضہ کرکے کاشت کاری کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ اس کی ایک مثال کاروان علاقہ کے موسیٰ ندی سے متصل شمشان گھاٹ کی اراضی کی ہے جہاں قبضہ کے بعد کاشت کاری بالخصوص ترکاری اور میتھی کی بھاجی کی کاشت کی جارہی ہے۔ اس سلسلہ میں حکام کو اطلاع کے باوجود خاطر خواہ کارروائی کرنے سے قاصر ہیں۔ ذرائع کے مطابق شمشان گھاٹ کی جس خالی اراضی پر بھاجی کی کاشت کرکے اس اراضی کو لوکل مارکٹوں کے علاوہ گڈی ملکاپور مارکٹ میں بھی فروخت کیا جارہا ہے۔ موسیٰ ندی کے گندے اور آلودہ پانی میں کاشت کی گئی بھاجی پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے یہی نہیں بلکہ قبضہ کا شکار اراضی پر موٹر کار کا شیڈ بھی تعمیر کیا گیا ہے۔ جب اس تعلق سے دریافت کیا گیا تو کاروان کے مقامی ایک شخص نے بتایا کہ متعلقہ شمشان گھاٹ ان کے کمیونٹی کا آبائی حصہ ہے۔ جس کو کمیونٹی کئی برسوں سے استعمال کررہی ہے تاہم قبضہ کے بعد وہ دیوالی اور دیگر تہوار منانے کے دوران اور میتوں کو نذر آتش کرنے کے دوران تکالیف حائل ہورہی ہیں کیوں کہ متعلقہ اراضی پر غیر مجاز قبضہ کرلیا گیا ہے۔ دوسری جانب قبضہ دار کا ادعا ہے کہ وہ ان کے پاس کوئی دستاویزات نہیں ہیں تاہم وہ روزی روٹی کے لئے میتھی کی کاشت کاری پر توجہ دے رہے ہیں۔ انھوں نے مزید بتایا کہ اطراف و اکناف سے بہنے والا ڈرینج کے پانی کو موز ناریل کی کاشت کے لئے بھی استعمال کررہے ہیں۔ اس تعلق سے جب محکمہ مال کے عہدیداروں سے دریافت کیا گیا تو اُنھوں نے اعتراف کیاکہ انھیں بھی اس طرح کی اطلاع ملی ہے تاہم ناجائز قبضہ کے خلاف کارروائی سے متعلق کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔