شوہر اور بیوی میں نااتفاقی طلاق کا سبب

   

محمد اسد علی ، ایڈوکیٹ

دور حاضر میں خاندانی اور روایتی اقدار کو بڑی حد تک بالائے طاق رکھا جارہا ہے اور اخلاق و اداب کو نظرانداز کیا جارہا ہے۔ ماضی میں شوہر اور بیوی کو ’’ایک جان دو قالب‘‘ کہا جاتا تھا اور یہ ازدواجی رشتہ آخر تک برقرار رہتا تھا شوہر بیوی کا احساس کرتا اور بیوی شوہر کے لئے انتہائی ہمدردی کی حامل ہوا کرتی تھی لیکن معاشرہ کی تبدیلی اور مغربی ممالک کے مضر اثرات نے معاشرہ اور بیوی جیسے رشتے پر بھی اپنے اثرات مرتب کئے۔ کئی موکلیں کے مطابق بعض لڑکیاں شادی کے بعد صرف اپنے شوہر کے ساتھ الگ رہنا پسند کرتی ہیں اور لڑکی شوہر کے افراد خاندان سے کوئی رشتہ نہیں رکھنا چاہتی ہے کیونکہ اکثر لڑکیوں شادی کے بعد کا جھکاؤ میکہ کی طرف ہوتا ہے اور اپنے شوہر کو بھی میکہ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی مٹھی میں لینے کی کوشش کرتے ہیں اگرچیکہ لڑکا اگر بیرونی ممالک میں ملازمت کرتا ہوتو اسے اپنے ماں باپ سے زیادہ سسرال کے لوگوں کی فکر رہتی ہے۔ وہ اپنے سالے اور سالیوں سے گھل مل جاتے ہیں اور ان کے لئے بیرونی ممالک سے تحفہ ٔ و تحائف بھجواتے ہیں۔ اپنے والدین کو ملازمت خطرہ میں ہے بتاکر پیریشانی ظاہر کرتے ہیں اور لڑکی بھی یہی چاہتی ہیکہ اس کا شوہر اس کی مٹھی میں رہے۔ ان کی ہر خواہشات کی تکمیل کرلے اور میکہ میں رہنے کی اجازت دے تاکہ میکہ میں رہ کر اپنے بھائی بہنوں اور دیگر رشتے داروں میں مزے اڑاتے پھرتے رہے۔ شوہر کے اس بات کی اجازت نہ دینے پر لڑکی سخت رویہ اختیار کرتے ہوئے فون پر نا زیبا الفاظ کا استعمال کرتی ہے جس سے شوہر اور ان کے والدین کو کافی تکلیف ہوتی ہے آخر کار لڑکے کے والدین مجبوری میں اپنے لڑکے کو الگ رہنے کے لئے اجازت دے دیتے ہیں لیکن لڑائی جھگڑے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ شوہر اور بیوی میں نا اتفاقی پیدا ہو جاتی ہے، لڑکی فون پر شوہر کو کیس کرنے کی دھمکی دیتی ہے نوبت پولیس اسٹیشن تک پہنچ جاتی ہے۔ لڑکی پولیس سے رجوع ہوتی ہے اور وہاں پر نہ صرف شوہر بلکہ اس کے بھائیوں، بہنوں، ساس اور دیگر کے خلاف شکایت درج کرواتی ہے۔ یہاں سوال یہ ہیکہ اگر لڑکے کے بھائی، بھاوج، بہنیں وغیرہ جو کئی سال سے بیرونی ملک میں مقیم ہو اور لڑکے کی شادی میں شرکت نہ کی ہوتو بھی لڑکی اپنی شکایت میں ان کا نام درج کرواتی ہے جس سے ان بے قصور لوگوں کو بلاوجہ مصیبت ہوتی ہے۔ اگر ان میں سے کوئی اپنے گھر (انڈیا) آنا چاہیں تو آ نہیں سکتے کیونکہ لڑکی کی شکایت پر پولیس
(Look Out Circular)
جاری کرتی ہے۔ ایسے کئی بے قصور لوگ بعض لڑکیوں کے ظلم کی وجہ سے بیرونی ممالک میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر شوہر اور نندیں حقیقت میں ظلم کرتے ہوں تو اس کے سدباب کے لئے قانون میں متعدد راستے موجود ہیں صرف
(LOC)
ایک چارہ کار نہیں ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کہ موجودہ دور مادیت پرستی کا دور ہے جس میں مغربی تہذیب کا غلبہ ہے جہاں ایسے خاندان کا رواج ہے جس کا مطلب صرف خاندان ہے۔ جو صرف اور صرف شوہر، بیوی اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ خاندان کے بزرگوں کو اس عمر میں کوڑا کرکٹ کی طرح پھینک دیا جاتا ہے جس میں انہیں دیکھ بھال کی انتہائی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ ایسے واقعات شہر میں اور اطراف کے علاقوں میں عام ہیں مغربی تہذیب اور ثقافت کی اس لعنت سے تقریباً 65 فیصد خاندان متاثر ہیں جہاں نالائق اولاد اپنے بزرگوں کو بوجھ سمجھ کر نکال باہر پھینکتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہیکہ جو ماں باپ ان کی پرورش اور تعلیم کا انتظام کرتے ہیں یہ بدنصیب اولادیں اس کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنے پیر پر کھڑے ہونے کے بعد بعض بیویوں کی ترغیب کے علاوہ اپنی غلط فطرت کی وجہ سے ماں باپ کو بوجھ سمجھ کر ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے ہیں۔ انتہائی افسوس کے ان نافرمان اولاد کو ان کے عزیز و اقارب بھی اس حرکت سے روکنے کی کوشش نہیں کرتے ہیں اور ان کی مدد کے لئے قدم بھی نہیں اٹھاتے ہیں حالانکہ مختلف خاندانوں میں دولت مند افراد کی کوئی کمی نہیں لیکن وہ اپنے غریب پریشان حال رشتے داروں سے قطع تعلق کر لیتے ہیں عیدین اور دیگر تقاریب میں شامل کرنا توہین سمجھتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ مساجد میں وعظ کے موقع پر اس اہم ترین موضوع کو نظرانداز کردیا جاتا ہے جبکہ اسلام میں ماں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی اور باپ کو جنت کا ایک دروازہ قرار دیا ہے لیکن مغربی تہذیب کے دور میں ان باتوں پر نوجوان توجہ نہیں دیتے ہیں اور اپنی بیوی کے کہنے پر ماں باپ جو ضعیف ہو ان سے علیحدگی اختیار کرلیتے ہیں انہیں اس بات کا خیال رکھنا ضروری ہیکہ وہ بھی پیرانہ سالی سے گذریں گے اور اس قسم کے حالات جو خود ان کے پیدا کردہ ہوتے ہیں جو انتہائی سنگین اور مہلک ترین نتائج پیدا کرسکتے ہیں ان حالات میں لڑکے اور لڑکی کے والدین کو چاہئے کہ اپنی شادی شدہ بچوں کی زندگی میں بیجا مداخلت نہ کرے اور اولاد کا بھی فریضہ ہوتا ہے کہ وہ مناسب حد تک ماں باپ کی خدمت کا خیال کریں۔ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے حقوق کا پاس و لحاظ و احترام کریں اور ایک دوسرے کی خطاؤں کو نظرانداز کرتے ہوئے جذبہ مفاہمت سے کام لیں۔ میاں بیوی دونوں بھی شرعی و مذہبی حقوق سے تجاوز نہ کرے ورنہ دونوں کی زندگی انتہائی تنقید کا شکار ہو سکتی ہے اور بچوں پر اس کے تباہ کن اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔