پاکستان کا فوڈایمرجنسی مؤقف مسترد
اسلام آباد15 جولائی (ایجنسیز) حکومت کی جانب سے حالیہ معاشی فیصلے، بالخصوص شکر کی درآمد پر دی جانے والی ٹیکس چھوٹ، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ طے شدہ معاہدے کے برخلاف تصور کیے جا رہے ہیں۔خانگی ٹی وی کی رپورٹ میں ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ آئی ایم ایف نے نہ صرف ان اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے بلکہ پاکستان کی جانب سے پیش کیا گیا ’فوڈ ایمرجنسی‘کا جواز بھی مسترد کر دیا ہے، جسے عالمی ادارے نے وعدوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا ہے۔حکومت پاکستان نے حالیہ ہفتوں میں شکر کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو جواز بنا کر 5 لاکھ ٹن چینی درآمد کرنے کی اجازت دی، جس کے ساتھ تمام درآمدی ٹیکسز، بشمول ڈیوٹی، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس میں نرمی کی گئی۔ ایف بی آر نے صرف 0.25 فیصد ٹیکس مقرر کر کے درآمدات کو مکمل طور پر سبسڈی نما ریلیف دیا جب کہ وزارت خزانہ نے اس فیصلے کی مخالفت کی تھی۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کابینہ نے وزارت خزانہ کی واضح مخالفت کے باوجود سمری منظور کر لی، جس کے بعد شکر کی قیمت مارکیٹ میں تیزی سے بڑھی اور پہلی بار 200 روپے فی کلو کی حد عبور کر گئی۔ اس اقدام نے نہ صرف مہنگائی میں اضافہ کیا بلکہ خود حکومت کے بیانیے کو بھی کمزور کیا، جو مسلسل میکرو اکنامک استحکام کا دعویٰ کر رہی تھی۔آئی ایم ایف کے حکام کے نزدیک چینی پر ٹیکس چھوٹ کا یہ فیصلہ سبسڈی نما رعایت کے زمرے میں آتا ہے، جو موجودہ 7 ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی معاہدے کی شرائط کے منافی ہے۔ معاہدے کے تحت پاکستان نئی ٹیکس چھوٹ یا سبسڈی متعارف نہیں کر سکتا جب تک وہ آئی ایم ایف سے پیشگی منظوری نہ لے۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف نے اس معاملے پر باضابطہ اعتراض اٹھایا ہے اور حکومت پاکستان سے وضاحت طلب کی ہے کہ کس بنیاد پر فوڈ ایمرجنسی کی اصطلاح استعمال کی گئی جبکہ حقیقی بنیادوں پر ایسی کوئی ہنگامی صورت حال نہیں تھی جو ٹیکس چھوٹ کو جواز فراہم کرے۔