شھادت سیدنا علی المرتضیٰؓ

   

ڈاکٹرحافظ محمد صابر پاشاہ قادری
آج 20رمضان المبارک کا دن ہے شھادت امیرالمومنین حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہ الکریم رضہ کا دن ہے زیرِ نظر تحریر میں ہم تاریخِ اسلام کی ایک ایسی عظیم ہستی کی سیرت سے چند جواہر پارے سمیٹ کر قارئین کی نذر کررہے ہیں جنھیں حیدرِ کرار سیدنا علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بلا شبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذاتِ بابرکات میں موجود جملہ صفات مسلمانوں کے لیے بالخصوص اور جملہ انسانیت کے لیے بالعموم ایسے رہنمایانہ اصول کی حیثیت رکھتے ہیں جن کو اختیار کرنے والا معاشرے کا بہترین انسان بن سکتا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کو بچپن ہی سے درسگاہ نبوت میں تعلیم و تربیت حاصل کرنے کا موقع ملا جس کا سلسلہ ہمیشہ قائم رہا۔ مسند امام احمد میں خود مولا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے روایت ہے:’’میں روزانہ صبح معمولاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا‘‘۔
آپ تمام صحابہ کرام میں غیر معمولی تجربہ اور فضل و کمال کے مالک تھے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپؓ کے لیے خصوصی شان بیان فرمائی کہ ’’میں علم کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں،آپ نجیب الطرفین ہاشمی تھے آپ نے اپنے بچپن میں ہی اسلام قبول کرلیا تھا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرتربیت ہروقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امداد و نصرت میں لگے رہتے تھے۔شجاعت میں آپ کی ذات گرامی بے مثل تھی۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بازوئے خبیر شکن، پنجہ شیر افگن عطا فرمایا۔ بارگاہ نبوت سے آپ کو اسداللہ کا لقب عطا ہوا۔ غزوہ بدر، غزوہ احد غزوہ خندق، غزوہ خیبر سے شہادت تک قدم قدم پر آپؓ نے فقیدالمثال شجاعت کا مظاہرہ کیا۔حضرت علی ابنِ ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل احادیثِ صحیحہ سے ثابت ہیں بلکہ اہلِ علم نے لکھا ہے کہ آپ کے اور آپ کی زوجہ جگر گوشہ رسول سیدہ کائنات سیدہ فاطم الزہراء سلام اللہ علیہا اور آپ کے شہزادے امام حسن و امام حسین سلام اللہ علیہما کے فضائل جس کثرت سے احادیثِ مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں، اصحاب و اہلِ بیتِ رسول میں سے کسی کے فضائل اس کثرت سے وارد نہیں ہوئے۔ یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ ہم حضرت علیؓ کا نام لینے اور آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کے فضائل بیان کرنے کے ساتھ ساتھ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی سیرت سے رہنمائی بھی لیں اور آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کی ذاتِ با برکات کے مختلف گوشوں کو بطور رہنما اصول کے اپنائیں، تاکہ ہم پر علوی صفات کا رنگ بھی چڑھے اور بارگاہِ نبوت سے خصوصی توجہات اور بارگاہِ الٰہی سے خصوصی تجلیات وعنایات کے مستحق ٹھہریں۔
حضرت ابو طالب کی رحلت کے بعدرسول اکرم ؐ نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کوچار پانچ سال کی عمر میں ہی اپنی کفالت میں لے لیا۔ یوں آپؓ نے آغوشِ نبوت میں پرورش و تربیت پائی۔ بعثتِ نبوی کے بعد جن چار قدسی نفوس کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کا شرف حاصل ہوا، ان میں سے ایک سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم بھی تھے جبکہ بچوں میں سب سے پہلے بالاتفاق آپ کو ایمان کا نور نصیب ہوا۔آپ کا شمار السابقون الاولون اور عشرہ مبشرہ میں ہوتا ہے۔
حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے زہدو ورع کا یہ عالم تھا کہ جب رات اپنی سیاہ چادر پھیلاتی تو آپ گریہ وزاری میں مگن ہو جاتے اور اللہ کے حضور رو رو کر مناجات کرنے لگتے۔ مؤرخین لکھتے ہیں کہ حضرت علی کے وصال فرما جانے کے بعد ان کی حیات میں ان کی خلوت نشینی دیکھنے والے کہتے کہ ہمیں آج بھی یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ان کی آواز اب بھی سنائی دے رہی ہو:اللہ تعالیٰ نے حضرت علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کو جودو سخا کا پیکر بنایا تھا۔ آپ اپنے در سے کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے۔ آپ کرم اللہ وجہہ الکریم کے ایثار وقربانی کے تذکرے قرآن میں بھی وارد ہوئے۔
’’جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں۔‘‘حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے ان مولا صفات بندوں میں سے جس ہستی کو تاج سروری عطا کیا گیا وہ خاتون جنت کے شوہر نامدار، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کے والد گرامی سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ کی ذات گرامی ہے۔ صحابہ کے بھرے مجمعے میں جن کا ہاتھ باعثِ تکوین کائنات فخر موجودات سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھ میں لے کر بلند کیا اور فرمایا :’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں‘‘۔ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح لوگ مشکلات اور پریشانیوں میں سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں رجوع کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توجہ اور دعا سے انہیں مشکلات سے نجات مل جاتی تھی، اسی طرح وہ بارگاہ مرتضوی رضی اللہ عنہ سے بھی رجوع کرتے چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ کی روحانی توجہ اور دعا سے مشکل کشائی ہو جاتی۔
حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت
حضرت امام یوسف النبھانی رحم اللہ علیہ نے حضرت امام فخرالدین رازی کے حوالے سے سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ کی روحانی قوت کا یہ ایک دلچسپ واقعہ جامع کرامات اولیاء میں درج کیا ہے وہ لکھتے ہیں۔
٭ ایک حبشی غلام حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتا تھا۔ ایک مرتبہ چوری کے جرم میں اسے حضرت امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ اس نے اپنے جرم کا اقرار کر لیا تو آپ کے حکم سے حسب قانون اس کا ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ ہاتھ کٹوا کر حبشی غلام دربار مرتضوی سے واپس آرہا تھا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن الکواء سے ملاقات ہوگئی جنہوں نے پوچھا کہ تیرا ہاتھ کس نے کاٹا ہے؟ غلام کہنے لگا ’’یعسوب المسلمین‘‘ ختن رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور زوج بتول علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ نے کاٹا ہے۔ ابن الکواء رضی اللہ عنہ نے پوچھا : انہوں نے تیرا ہاتھ کاٹ دیا ہے اور تو ان کی مدح کرتا ہے؟حبشی کہنے لگا میں ان کی مدح کیوں نہ کروں، انہوں نے مجھے آخرت کی سزا سے بچا لیا ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اس کی یہ بات سن کر بڑے حیران ہوئے اور جا کر حضرت مولا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سارا واقعہ بیان کر دیا۔سیدنا حضرت علی المرتضٰی رضی اللہ عنہ نے فوراً غلام کو طلب فرمایا اور اس کا ہاتھ اس کی کلائی کے ساتھ رکھ کر رومال سے ڈھانپ دیا، کچھ دعائیہ کلمات پڑھے۔ اچانک ایک آواز آئی کہ کپڑا ہٹادو، کپڑا ہٹایا گیا تو ہاتھ بالکل صحیح سالم تھا۔ (جامع کرامات اولیا و جلد اول ص 423)
’’اے وہ ذات اقدس جو تاریکیوں میں مضطرب و بے قرار انسان کی پکار سنتی ہے۔ اگر خطا کار تیری بخشش کے امیدوار نہ ہوں تو پھر گناہ گاروں پر تیرے سوا نعمتوں کی بارش کون برسائے گا۔ ‘‘حضرت حیدر کرار رضی اللہ عنہ نے اشعار سنے تو حکم دیا اس شخص کو تلاش کیا جائے۔ لوگ اسے ڈھونڈ کر لے آئے، وہ پہلو گھسیٹتا ہوا آپ کے سامنے حاضر ہوگیا، آپ نے فرمایا : تجھے کیا مصیبت پیش آئی ذرا بیان تو کرو۔ وہ شخص کہنے لگا : میں عیش و نشاط اور گناہوں میں مبتلا تھا، میرے والد مجھے نصیحت فرماتے ہوئے کہتے : بیٹا خدا سے ڈرو، اس کی گرفت بڑی سخت ہے۔ ایک دفعہ جب انہوں نے بار بار نصیحتیں کیں تو مجھے غصہ آگیا اور میں آپے سے باہر ہوگیا اور طیش میں آکر انہیں پیٹ ڈالا۔