رام پنیانی
جب ہندوستان نے آزادی حاصل کی اس کے بعد ہمارے ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے جو تقریر کی ساری دنیا میں اس تقریر اور خطاب کو Tryst with Destiny کے نام سے جانا جاتا ہے اور ان کی اس تقریر نے ہندوستان کے مستقبل کا تعین کردیا تھا اور دنیا کو یہ بتادیا تھا کہ ہندوستان ایک جمہوری ایک سیکولر ملک ہے جس میں بلا لحاظ مذہب و ملت رنگ و نسل ذات پات اور علاقہ سب کے ساتھ یکساں سلوک روا رکھا جائے گا۔ تمام ہندوستانی شہریوں کو مساویانہ دستوری حقوق کے ثمرات حاصل ہوں گے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں جو عہد کیا اس کے تحت بھارت کی خدمت کا مطلب اس کے ان کروڑہا شہریوں کی خدمت ہے جو کئی ایک پریشانیوں اور مصائب کا شکار ہیں۔ ان کے عہد کا مطلب غربت، جہالت، بیماریوں اور مواقع میں عدم مساوات کا خاتمہ ہے۔ ہماری نسل کے اس عظیم شخصیت (پنڈت جواہر لال نہرو) کی جو تمنا جو خواہش تھی وہ یہی تھی کہ ہماری کسی شہری کی آنکھوں میں آنسو نہ رہے۔ ان کا ماننا تھا کہ جب تک لوگوں کے آنکھوں میں آنسو رہیں گے جب تک وہ مشکلات و پریشانیوں کا شکار رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارا کام ختم نہیں ہوا۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے جو تاریخی خطاب کیا تھا وہ کچھ یوں تھا ’’کتنے برس ہوئے کہ ہم نے قسمت سے ایک بازی لگائی تھی، ایک اقرار کیا تھا ایک عہد کیا تھا اب وقت آیا کہ، ہم اس کو پورا کریں۔ بالکل پورا تو شاید اب بھی نہ ہوں لیکن پھر بھی ایک بہت بڑی منزل پوری ہوئی اور ہم وہاں پہنچے۔ مناسب ہیکہ ایسے وقت پہلا کام ہمارا یہ ہو کہ ہم ایک پرانے اور ایک نیا عہد پھر سے کریں، اقرار کریں آئندہ ہندوستان کا اور ہندوستان کے لوگوں کی خدمت کرنے کا چند منٹ میں یہ اسمبلی ایک پوری طور سے آزاد خود مختار اسمبلی ہوگی اور یہ اسمبلی ایک آزاد اور خود مختار ملک کی نمائندگی کرے گی، چنانچہ اس کے اوپر زبردست ذمہ داریاں آتی ہیں اور اگر ہم ان ذمہ داریوں کو پوری طور سے محسوس نہ کریں تب شاید ہم اپنا کام پوری طور سے نہیں کریں گے۔ اس لئے یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم ایسے موقع پر پوری طور سے سوچ سمجھ کر اس کا اقرار کریں اور جو قرارداد میں آپ کے سامنے پیش کررہا ہوں وہ اقرار اس عہد کا ہے ’’ہم نے ایک منزل پوری کی اور اس کی خوشیاں منائی جارہی ہیں ہمارے دل میں خوشی ہے کسی قدر غرور بھی ہے اور اطمینان ہے لیکن یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ہندوستان بھر میں خوشی نہیں اور ہمارے دل میں بھی رنج کے ٹکڑے کافی ہیں اور دہلی سے بہت دور نہیں بڑے بڑے شہر جل رہے ہیں وہاں کی گرمی یہاں تک آرہی ہے، خوشی پوری طور سے نہیں ہوسکتی لیکن پھر بھی ہمیں اس موقع پر ہمت سے ان سب باتوں کا سامنا کرنا ہے۔ نہ ہائے ہائے کرنی ہے نہ پریشان ہونا ہے۔ جب ہمارے ہاتھ میں باگ ڈور آئی تو اس گاڑی کو چلانا ہے۔ عام طور سے جب ملک آزاد ہوتے ہیں کافی مصیبتوں اور خون ریزی کے بعد آزاد ہوتے ہیں۔ کچھ کافی خون ریزی ہمارے ملک میں بھی ہوئی ہے اور اس ڈھنگ سے ہوئی جس سے بہت ہی تکلیف ہوتی ہے۔ پھر بھی ہم آزاد ہوئے اور ایک عجیب مثال ہم نے ساری دنیا کے سامنے رکھی اور ہم نے جو خواب دیکھا اسے پوری طرح حقیقت بنانا ہے۔ ملک کو آزاد نہیں کرنا تھا بلکہ ملک سے غیر ملک کی حکومت کو الگ کرنا تھا۔ وہ کام پورا ہوا لیکن غیر ملک کی حکومت کو الگ کرکے وہ کام پورا نہیں ہوا جب تک ہندوستان کا ایک ایک انسان آزادی کی ہوا میں نہ رہ سکے اور اس کی تکلیف دور نہ ہوں اور جو مصیبتیں ہیں وہ ہٹائی نہ جائے۔ ایک بہت بڑا حصہ ہمارے کام کا باقی ہے جب تک وہ باتیں پوری نہ ہوں ہمارا کام جاری رہے گا۔ بڑے بڑے سوال ہمارے سامنے ہیں۔ اتنے بڑے بڑے سوال پرانے زمانے میں ہم نے حل کئے، نئے سوالات سے کیا ہم دب جائیں گے؟ ہندوستان دایک ایسا ملک ہے اس بات کو یاد رکھیں کہ اس آزادی کے دروازے پر ہم جو کھڑے ہیں یہ کسی ایک فرقہ کا کسی ایک مذہب والوں کا ملک نہیں ہے بلکہ بہت سارے بہت قسم کے لوگوں کا مذہبوں کا ہے۔ اس اسی طرح کی آزادی ہم چاہتے ہیں۔ یہ جو آزادی ہماری ہے وہ ہر ایک ہندوستانی کے لئے ہے اور ہر ایک ہندوستانی کو برابر کے حق اور ہر ہندوستانی کو اس آزادی کا برابر حصہ دار بننا ہے۔ اس ڈھنگ سے ہم آگے بڑھیں گے۔ اگر کوئی کسی پر زیادتی کرے گا اسے ہم زیادتی سے روکیں گے، جس پر زیادتی ہو رہی ہے اس کی مدد کریں گے۔ چاہے وہ کوئی بھی ہو اسطرح سے ہم چلیں گے تو ہم بڑے مسئلوں کو حل کریں گے لیکن اگر ہم کہیں تنگ خیالی میں پڑ جائیں گے تب وہ مسئلے حل نہیں ہوں گے۔
پنڈت جواہر لال نہرو نے اپنی تاریخی تقریر میں سارے ہندوستان اور ہندوستانی عوام کو جدید ہندوستان کے ویژن اور مشن کا پیام دیا تھا اورہاں ! بھا کراننگل ڈیم کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں بھی جدید ہندوستان کے اداروں کے ویژن کو انہوںنے پیش کیا تھا اور بتایا تھا کہ جدید ہندوستان میں سب کے ساتھ یکساں سلوک ہوگا کسی کے ساتھ تعصب و جانبداری نہیں برتی جائے گی۔ سب کو مساویانہ مواقع دیئے جائیں گے۔ ہندوستان ٹائمس آرکائیوز کی ایک رپورٹ میں واضح طور پر یہ کہا گیا کہ ایک عظیم احساس کے ساتھ وزیر اعظم نے ان مقامات (اداروں) کو مندروں اور عبادت گاہوں سے تعبیر کیا جہاں لاکھوں انسان عظیم تر تعمیری سرگرمیوں میں مصروف تھے تاکہ ان کے کاموں اور سرگرمیوں سے اپنے کروڑوں ہم وطنوں کو فائدہ پہنچے۔ بہرحال پنڈت جواہر لال نہرو نے جدید ہندوستان کے منادر کا جو جملہ استعمال کیا دراصل وہ عوامی شعبہ جات کی کمپنیوں، اداروں، سائنٹفک رجحانات کو فروغ دینے والے تعلیمی اداروں، نگہداشت، صحت کے مراکز انسانوں کے ساتھ ساتھ تہذیب و تمدن اور ثقافت کو فروغ دینے والی اکیڈیمیوں کی طرف اشارہ تھا۔ آپ کو بتادیں کہ چار تا 5 دہوں کے اپنے سفر میں جدید ہندوستان کے ان مندروں کے لئے 1980 کا دہا ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ ایک طرف شاہ بانو کیس میں حکومت کے موقف سے تخریبی اور لوگوں کو مذہبی خطوط پر تقسیم کی سیاست کے دروازے کھل گئے حالانکہ مسئلہ کچھ بھی نہیں تھا لیکن فرقہ پرست طاقتوں نے ملک میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف بڑے پیمانے پر پروپگنڈہ مہم شروع کی۔ دروغ گوئی کا سہارا لیا گیا اس دوران کمزور و پسماندہ طبقات کے لئے منڈل کمیشن کی سفارشات پر عمل آوری جیسے مثبت اقدامات نے مندر کی سیاست کو ایک نئی توانائی عطا کی کیونکہ ہندو قوم پرستوں کی پلے بک میں اس مسئلہ پر پہلے ہی سے ایک خصوصی حکمت عملی تیار کردی گئی تھی چنانچہ جدید ہندوستان کے منادر سے متعلق پنڈت نہرو کے ویژن کے متضاد مساجد کے نیچے مندروں کی تلاش کی جدوجہد شروع کی گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بابری مسجد کو ملک کا سب سے بڑا اور سلگتا مسئلہ بنا دیا گیا۔ آر ایس ایس (راشٹریہ سوئم سیوک) کی سیاسی ونگ بی جے پی 1980 میں وجود میں آئی اور پہلے تو اس نے اعتدال پسند اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں گاندھیائی سوشلزم کا نقاب اوڑھ لیا، اگرچہ ملک میں اے بی واجپائی اور اعتدال پسند شبیہ کے حامل تھے۔ اس کے باوجود ان کی جڑیں آر ایس ایس میں گہرائی تک پیوست تھیں جس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ’’تن من ہندو جیون‘‘ کے زیر عنوان ایک کتاب بھی تحریر کی اور اپنی ہندو قوم پرستانہ سیاست کا نقاب بھی اوڑھے رکھا۔ بعد میں اٹل بہاری واجپائی نے اڈوانی کے لئے راہ ہموار کی جو ملک میں تباہی و بربادی مچانے والا نعرہ ’’مندر وہیں بنے گی‘‘ لے کر سامنے آئے یعنی انہوں نے فرقہ پرستی کی تمام حدود پار کرتے ہوئے یہ نعرہ دیا۔ مندر وہیں بنے گی جہاں بابری مسجد ہے۔ اس پر طرفہ تماشہ یہ ہوا کہ آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیموں نے عوام کو یہ تاثر دیا کہ شری رام چندرجی اس مقام پر پیدا ہوئے جہاں بابری مسجد کھڑی ہے۔ پھر ہندوستان نے دیکھا کہ رام رتھ یاترا نکل پڑی۔ اس سے پہلے منڈل کمیشن سفارشات پر عمل آوری شروع ہوگئی جس سے سنگھ میں اپنی بقاء کو لے کر تشویش پیدا ہوئی چنانچہ رام رتھ یاترا نے تشد کی ایک خطرناک لہر پیدا کردی 1990 میں ایل کے اڈوانی کی رتھ یاترا کے بعد پھوٹ پڑے تشدد میں تقریباً 1800 لوگ ملک کے مختلف مقامات پر اپنی زندگیوں سے محروم ہوگئے۔ وہ یاترا عملا اس وقت رک گئی جب بہار میں لالو یادو نے اڈوانی کو گرفتار کروایا۔ 6 ڈسمبر 1992 کو کارسیوکوں نے بابری مسجد شہید کردی۔ کچھ کارسیوکوں نے مسجد کو شہید کررنے کا پہلے سے ہی منصوبہ بنا لیا تھا۔ اس وقت اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی اسٹیج پر بیٹھے ہوئے تھے جہاں ایک دھکہ اور دو بابری مسجد توڑدو اور یہ تو کیول جھانکی ہے کاشی متھرا باقی ہے جیسے نعرے بلند کئے جارہے تھے۔ شہادت بابری مسجد کے بعد ممبئی، بھوپال، سورت اور مختلف مقامات پر فسادات ہوئے، خلاصہ یہ کہ ہمارے ملک کے قانونی نظام نے عقیدہ کی بنیاد پر فیصلہ دیا جبکہ مسجد کو شہید کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دی بلکہ بابری مسجد کی ساری ارضی مندر کی تعمیر کے لئے ہندو فریق کو دے دی۔