نریندر مودی … غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم
اجمیر کو چادر … مندر کے دعوے پر خاموشی
رشیدالدین
’’ غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم‘‘ یہ مشہور قول ہر اس شخص کیلئے ہے جو غیروں سے الفت اور اپنوں سے نفرت کا معاملہ کرے۔ اگر کسی عام آدمی کا رویہ اس طرح کا ہو تو پھر بھی قابل نظر انداز اور قابل معافی ہوسکتا ہے لیکن اگر حاکم وقت اپنی رعایا کہ ساتھ اس طرح کا جانبداری سلوک کرے تو اسے حکمراں کہلانے کا کوئی حق نہیں۔اگر حاکم ہٹلر کی طرح ڈکٹیٹر ہو تو اسے بارہ خون معاف ہوں گے لیکن اگر جمہوری نظام میں کوئی حکمراں دستور کی قسم کھاکر ہر شہری کے ساتھ یکساں سلوک کا عہد کرے تو اس پر لازم ہوجاتا ہے کہ حلف کی پاسداری کرے۔ نریندر مودی نے تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کا حلف لیتے ہوئے قسم کھائی تھی کہ وہ کسی بھید بھاؤ کے بناء تمام لوگوں کے ساتھ انصاف کریں گے ۔ نریندر مودی نے دنیا کے سامنے یہ عہد نہیں کیا بلکہ سب کا ساتھ سب کا وکاس ، سب کا پریاس کا نعرہ لگاکر یقین دلانے کی کوشش کی کہ وہ بلا لحاظ مذہب، علاقہ ، زبان اور تہذیب ہر کسی کے ساتھ یکساں سلوک کریں گے۔ نریندر مودی کے ان نعروں پر بھولے بھالے عوام نے بھروسہ کیا اور اچھے دن کی امید کرنے لگے۔ انہیں کیا پتہ تھا کہ نریندر مودی گجرات پس منظر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ فسادات کے دوران مدد کیلئے کانگریس کے سابق ایم پی احسان جعفری نے فون کیا تو ہمدردی کے بجائے الٹا گالی گلوج کرتے ہوئے فون کٹ کردیا گیا تھا۔ احسان جعفری پر چیف منسٹر کی حیثیت سے احسان کرنے کے بجائے موت کا تماشہ دیکھنے والے نریندر مودی نے وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے کے بعد بھی اپنی روش کو جاری رکھا۔ انگریزی میں مقولہ ہے پرانی عادتیں آسانی سے ختم نہیں ہوتی۔ ٹھیک اسی طرح چیف منسٹر سے ملک کے وزیراعظم کی کرسی تک پہنچنے کے باوجود مودی کی فطرت تبدیل نہیں ہوئی۔ وزیراعظم کی حیثیت سے دس سال مکمل ہوگئے اور تیسری میعاد کا آغاز ہوچکا ہے لیکن سب کا ساتھ سب کا وکاس اور اچھے دن کے نعرے تو برقرار ہیں لیکن حکومت کا طرز عمل اس کے برخلاف ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اچھے دن اور وکاس نہیں ہوا۔ مودی نے اپنے قریبی صنعتی گھرانوں اور سنگھ پریوار سے تعلق رکھنے والوں کا ساتھ دیا اور وکاس کے ذریعہ ان کے اچھے دن کا وعدہ پورا کیا۔ مودی کو بھلے ہی حلف برداری کے الفاظ یاد نہ ہوں لیکن دنیا کی آنکھوں نے گزشتہ دس برسوں میں جو مناظر دیکھے ہیں، وہ انسانیت کو شرمسار کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ دستور ، قانون اور جمہوریت کے اصولوں پر کاربند رہتے ہوئے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کی خیرخواہی اور خبرگیری کے بجائے ان کے خلاف کارروائیوں کا فلڈ گیٹ کھول دیا گیا۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں مسلمانوں کیلئے کوئی اچھی خبر آئی ہو۔ تعلیم ، معیشت ، ثقافت ، تہذیب اور تاریخ الغرض ہر شعبہ میں مسلمانوں کے اطراف گھیرا تنگ کیا گیا۔ اسلام اور شریعت میں حکومت نے کھل کر مداخلت کی۔ مساجد کے نیچے مندروں کی تلاش کیلئے بھارت کھودو مہم شروع کی گئی۔ دستور اور قانون میں مسلمانوں کو دیئے گئے حقوق کے برعکس اقدامات کئے گئے۔ مذہبی شناخت اور تشخص کو مٹانے کی سازش کی گئی ۔ یہ تو رہی بات اندرون ملک مودی حکومت کے مسلمانوں کے ساتھ سلوک کی لیکن وہی نریندر مودی جب ملک کے باہر ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ جیسے وہ 50 فیصد مسلمان بن چکے ہیں۔ مسلم اور عرب ممالک کے دورہ کے موقع پر مسلم سربراہوں سے ان کی جذباتی اور والہانہ ملاقاتیں، بار بار گلے ملنا ، اسلام اور مسلم تہذیب کی تعریف کرنا یہ مناظر دیکھ کر کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا کہ یہ وہی ہندوستانی وزیراعظم ہیں جن کے ملک میں مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک جاری ہے۔ ملک سے پرواز کرتے ہی نریندر مودی مسلم ہمدردی کا لبادہ دھارن کرلیتے ہیں۔ مسلم حکمرانوں کو خوش کرنے کیلئے ان کی زبان عربی میں لکھ کر ہی سہی بات کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ہندوستان میں مسلمانوں کو بھلے ہی عید کی مبارکباد نہ دیں اور روایتی دعوت افطار کا اہتمام نہ کریں لیکن مسلم اور عرب ممالک پہنچتے ہی مسلمانوں سے محبت امنڈ آتی ہے ۔ مودی کی دو رخی کہہ لیں یا پھر سیاسی چال ۔ دونوں صورتوں میں وہ ایک ماہر اداکار ثابت ہوئے ہیں جو یقینی طور پر آسکر ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ نریندر مودی کے اسی طرز عمل کو ہم نے غیروں پہ کرم اپنوں پہ ستم سے تعبیر کیا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف مسلم اور عرب حکمراں محبت اور خلوص کے قابل ہیں ؟ حیدرآبادی کہاوت ہے کہ والد کو والد نہیں پڑوسی کو چاچا کہا گیا۔ ٹھیک اسی طرح ملک کے مسلمانوں سے مودی کو محبت نہیں لیکن پڑوسی کو بھائی اور میرے دوست کہہ کر مخاطب کرنے میں فخر محسوس کر رہے ہیں۔ اسلام کی فراخدلی اور مسلمانوں کی خیرسگالی دیکھئے کہ ہر مسلم ملک نے نریندر مودی کو اپنے ملک کا اعلیٰ ترین سیویلین اعزاز عطا کیا۔ ہندوستان کی دوسری بڑی اکثریت اور سب سے بڑی اقلیت کا آخر قصور کیا ہے کہ مودی کی نظر میں وہ محبت کے لائق بھی نہیں۔ کیا ملک کے لئے مسلمانوں کی قربانیاں نہیں ہے؟ کیا ملک کی ترقی میں مسلمانوں کی حصہ داری نہیں ہے؟ ملک کی آزادی کے لئے جان کی قربانی دینے کا معاملہ ہو یا پھر ملک کو نیوکلیئر طاقت بنانا ہو، یہ کارنامہ مسلمان کا ہی ہے ۔ میزائیل میان اے پی جے عبدالکلام کو تاریخ کبھی فراموش نہیں کرپائے گی۔ نریندر مودی کے ریڈ کارپیٹ ویلکم اور سیویلین اعزاز کی پیشکشی کے وقت مسلم حکمرانوں کو یہ خیال نہیں اتا کہ ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک روا رکھا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے حالات اور ان پر مظالم کے بارے میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کرتے اور نہ ہی سوال کرتے ہیں ۔ شائد یہی وجہ ہے کہ دیگر ممالک کے مقابلہ میں نریندر مودی جب عرب اور مسلم ممالک میں ہوتے ہیں تو زیادہ خوش دکھائی دیتے ہیں۔ عرب اور اسلامی ممالک سے تجارتی اور دیگر معاہدات تو ہورہے ہیں لیکن ان سے مسلمانوں کو کوئی فائدہ نہیں۔
نریندر مودی نے 2024 کا آخری بیرونی دورہ کویت کا کیا اور یہ محض اتفاق ہے کہ 2023 کا آخری بیرونی دورہ دبئی کا ہوا تھا۔ عرب ممالک کے دورے میں نریندر مودی کے جذبات کچھ مختلف دکھائی دیتے ہیں اور وہ عرب حکمرانوں سے کچھ اس طرح گھل مل جاتے ہیں جیسے وہ دیرینہ اور بچپن کے دوست ہوں۔ ہندوستانی مسلمانوں کا نریندر مودی سے سوال ہے کہ جب بیرونی مسلم حکمرانوں کو گلے لگاتے ہیں تو پھر ملک میں مسلمانوں کو گلے لگانے سے گریز کیوں ہے۔ گزشتہ دس برسوں میں ماب لنچنگ ، گاؤ رکھشا ، لو جہاد اور دیگر عنوانات سے مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ نریندر مودی کو زیادہ خوش دیکھنا ہو تو انہیں بیرونی دوروں پر بھیجنا چاہئے ۔ گزشتہ دس برسوں میں مودی نے 84 بیرونی دورے کئے اور 73 ممالک کا سفر کیا ۔ نریندر مودی کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ شائد ہی دنیا کا کوئی حکمراں توڑ پائے گا۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ اگر نریندر مودی مزید 10 سال وزارت عظمی ٰ پر برقرار رہیں تو ورلڈ ٹور مکمل کرلیں گے ۔ اتنا ہی نہیں اگر دنیا کی سیر مکمل ہوجائے تو نریندر مودی واسکوڈی گاما کی طرح کچھ نئے ممالک کو ایجاد کرلیں گے۔ دوسری طرف وزیراعظم نے اجمیر شریف کو چادر روانہ کرتے ہوئے خواجہ اجمیریؒ سے اپنی عقیدت کا اظہار کیا ہے۔ نریندر مودی نے ملک کے وزرائے اعظم کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے گزشتہ 10 برسوں میں ہر سال عرس شریف کے موقع پر خصوصی چادر روانہ کی ہے۔ جاریہ سال مودی کی جانب سے چادر کی روانگی اس لئے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ گزشتہ دنوں جارحانہ فرقہ پرست عناصر نے درگاہ شریف کے مندر ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے عدالت میں درخواست دائر کی ہے ۔ سینکڑوں سال سے جہاں دنیا بھر کے عقیدتمند فیض حاصل کرنے کیلئے پہنچتے ہیں ، اس درگاہ میں مندر کی تلاش پر نریندر مودی کی خاموشی معنیٰ خیز ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نریندر مودی نے محض رسم کی ادائیگی کیلئے چادر روانہ کی ہے یا پھر وہ حقیقت میں عقیدت رکھتے ہیں۔ اگر نریندر مودی کو عقیدت کا اظہار کرنا ہو تو انہیں چادر کی روانگی سے قبل سنگھ پریوار کے عناصر کی مذمت کرنی چاہئے تھے جنہوں نے درگاہ شریف پر بری نظر ڈالنے کی جرأت کی ہو۔ عرس شریف کے موقع پر چادر کی روانگی کے ذریعہ مسلمانوں کو خوش نہیں کیا جاسکتا۔ نریندر مودی کو اس بات کی وضاحت کرنی چاہئے کہ انہوں نے کس نیت سے چادر روانہ کی ہے۔ دراصل انہیں شخصی طور پر حاضری کے ذریعہ فرقہ پرست عناصر کی مخالف درگاہ سرگرمیوں پر مسلمانوں سے معذرت خواہی کرنی چاہئے، ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ چادر کی روانگی دل سے نہیں بلکہ رسمی ہے۔ ملک کی معروف شاعر تاجور سلطانہ نے کیا خوب کہا ہے ؎
کیوں غرور کرتے ہو جاکے تم بلندی پر
شہرتوں کا یہ پرچم دیر تک نہیں رہتا